’’میری فیملی گزشتہ کم از کم ۴۰۰ برسوں سے اس فن کا مشق کر رہی ہے،‘‘ ستیش بھانو بھائی چتارا بتاتے ہیں۔ وہ ماتا نی پچیڑی کے فن – سوتی کپڑے پر قدرتی رنگوں سے مصوری – کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ہمیں حال ہی میں ایک ۳۰۰ سال پرانی پچیڑی (پینٹنگ) ملی ہے، جو ہمارے اجداد نے بنائی تھی۔ ہم اسے بہت سنبھال کر رکھتے ہیں اور صرف خاص مواقع جیسے نوراتری یا لکشمی پوجا پر ہی نکالتے ہیں۔ یہ پینٹنگز ہمیشہ ایسی ہی رہیں گی جیسے اتنے سالوں سے ہیں۔ اگر آپ انہیں سنبھال کر رکھیں گے، تو یہ آنے والی کئی نسلوں تک ایسی ہی رہیں گی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

۲۹ سالہ ستیش نے یہ فن اپنے والد، ۶۵ سالہ بھانو بھائی چنی لال چتارا سے چھوٹی عمر میں سیکھا تھا، اور ان کے والد نے اپنے آنجہانی والد چنی لال چھوٹا لال چتارا سے سیکھا تھا۔ اس فن کی مشق عام طور سے مرد ہی کرتے ہیں؛ فیملی کی عورتیں گھر کے کاموں اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ چتارا فیملی بھانو بھائی چنی لال چتارا سے پہلے کی چھ نسلوں کے نام گِنوا سکتی ہے، جو اس فن کی مشق کرتے تھے – اپنے اجداد کی یاد میں، نام، تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات سمیت پتھر کے یادگار بنانے کی روایت نے انہیں ایک پورا شجرۂ نسب فراہم کیا ہے۔

چتارا فیملی بنیادی طور سے احمد آباد ضلع کے وِرنگم تعلقہ سے ہے۔ ’’مغلیہ سلطنت، برطانوی حکومت، کسی نے بھی ہمارے فن کو متاثر نہیں کیا۔ میرے اجداد نے کئی نسلوں تک اسی علاقے میں مشق کی۔ قحط کی وجہ سے ہمیں آس پاس کے شہروں میں مہاجرت کرنی پڑی اور ہم احمد آباد کے خانپور آ گئے، جہاں ہم دو صدیوں سے رہ رہے ہیں اور اس فن کی مشق کر رہے ہیں۔ اسی اٹوٹ وراثت کی وجہ سے لوگ ہمارے کام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں،‘‘ ستیش بتاتے ہیں۔ ان کے والد بھانو بھائی چتارا کو ۲۰۱۲ میں قومی انعام سے سرفراز کیا گیا تھا اور انہوں نے اس وقت کے صدر جمہوریہ آنجہانی پرنب مکھرجی سے اسے حاصل کرنے کے لیے دہلی کا سفر کیا تھا۔

ہر ایک پینٹنگ کا نام ہے، جیسے پنیہری ایسی پینٹنگ ہے جس میں اساطیری داستان جیسے مہابھارت اور رامائن سے متاثر کہانیاں ہو سکتی ہیں۔ پینٹنگز میں موسیقی آلات بجانے والوں، ہندو دیوی دیوتاؤں، جلانے والی لکڑی اکٹھا کرنے والوں، نجومیوں، پجاریوں وغیرہ کی تصویریں ہوتی ہیں۔ ان پینٹنگز میں اساطیری داستانوں کے ساتھ ساتھ علاقائی کہانیاں بھی درج ہیں۔ ’’ہماری طرح کے روایتی فنون میں، یہ اہم ہے کہ زیادہ تبدیلی نہ کی جائے،‘‘ ستیش بتاتے ہیں، یہ پوچھنے پر کہ کیا وہ اپنے فن میں نئی تصویروں کو بھی شامل کرتے ہیں۔ فنکار کاغذ پر تصورات کے خطوط نہیں کھینچتے، بلکہ وہ کپڑے پر تصویر بنانے سے پہلے تصویروں کا تصور کرتے ہیں۔ خطوط بانس کی ٹہنیوں سے کھینچے جاتے ہیں اور پھر قدرتی رنگ جو زنگ، گڑ، املی کے بیجوں، نیل اور مہندی سے بنتے ہیں، اس میں بھرے جاتے ہیں۔

ہر ایک تصویر کا تناسب اور پیمائش کپڑے کی ناپ پر منحصر ہے۔ پہلے یہ تصویریں صرف بڑے کپڑوں پر ہی بنائی جاتی تھیں۔ جمع کرنے والے لوگ اب ان پرانی پچیڑیوں کو تلاش کرتے ہوئے آتے ہیں جن کا ملنا مشکل ہے کیوں کہ انہیں عام طور پر مندروں میں چڑھایا جاتا تھا۔ اس فن کی ابتدا ان کے گھر کے پاس واقع ماں سیتروجیا مندر کی کُل دیوی کو چڑھائی جانے والی بھینٹ کے طور پر ہوئی تھی۔ ’’جب تک مصوری کا کام ہو رہا ہو، اسے کوئی بھی چھو سکتا ہے، لیکن ایک بار جب دیوی کو بھینٹ چڑھا دی جاتی ہے، تب صرف چیف پروہت ہی اسے چھو سکتے ہیں،‘‘ ستیش نے بتایا۔ پچیڑی جب بہت پرانی ہو جاتی ہے، تو اسے مقدس ندی میں بہا دیا جاتا ہے۔

پچھلی صدی میں ماتا نی پچیڑی کے فن میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ چتارا فیملی اس وقت کو یاد کرتی ہے جب پینٹنگ کو زیادہ کفایتی بنانے کے لیے اس میں صرف بلاک – مٹی اور لکڑی دونوں کے بلاک کا استعمال ہوتا تھا۔ بلاک کا استعمال کرتے وقت بھی رنگ صرف ہاتھ سے ہی بھرے جانے چاہیے۔

’’دستکاری کی اہمیت کو ایک بار پھر تسلیم کیا جا رہا ہے اور یہ مصوری ایک بار پھر مانگ میں ہے،‘‘ ستیش کہتے ہیں۔ چونکہ لوگ اس مصوری میں لگی محنت کے لیے پیسے دینے کو تیار ہیں، اس لیے مصور بھی ان تصویروں کو پوری طرح ہاتھ سے بنانے لگے ہیں۔

دوسری تبدیلی یہ ہے کہ یہ پینٹنگ اب صرف مذہبی نہیں رہ گئی ہے، بلکہ روزمرہ کی چیزوں میں بھی اس کی توسیع ہو گئی ہے – یہ مصوری اب ساڑیوں، دوپٹوں، چادروں اور دوسرے کپڑوں پر بھی کی جانے لگی ہے کیوں کہ دیوار پر ٹانگنے کے لیے ان تصویروں کی مانگ بہت محدود ہے۔ جب ماتا نی پچیڑی کپڑوں اور دیگر چیزوں پر کی جاتی ہے، تب دیوی دیوتاؤں کی جگہ قدرت اور عام زندگی کی تصویر لے لیتے ہیں۔ ان دنوں ’زندگی کے درخت‘ کی تصویروں کی مانگ ہے، ستیش بتاتے ہیں۔

وہ اپنی مصنوعات کو نمائشوں میں فروخت کرتے ہیں جہاں نسبتاً کفایتی بلاک پرنٹ تکنیک سے بنی ساڑیوں اور چادروں کی مانگ ہے۔ بلاک، گاندھی نگر کے پاس پیٹھاپور میں بنتے ہیں۔ وہ پینٹنگ اور مصنوعات گاہکوں کی مانگ پر ہی بناتے ہیں اور غیر متوقع گاہکوں کے لیے کچھ اضافی رکھ دیتے ہیں۔

ماتا نی پچیڑی کا عمل تب شروع ہوتا ہے جب کپڑے کو ہرڈے پاؤڈر (ٹرمینولیا نوع کے درختوں کی پتیوں) سے رنگ دیا جاتا ہے۔ قدرتی کالا رنگ لانے کے لیے زنگ اور اور گڑ کے آمیزہ کو ملایا جاتا ہے اور خمیر کے لیے ۱۵-۲۰ دنوں تک چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد املی کے بیج کے پاؤڈر (جسے کچکا کہتے ہیں) کو ملایا جاتا ہے اور آمیزہ کو اُبالا جاتا ہے۔ آمیزہ کو لسدار رکھا جاتا ہے تاکہ وہ کپڑے پر نہ بہے۔ ’’لوہے کی زنگ سے بنے کالے رنگ کی وجہ سے کپڑا کچھ سو سالوں بعد خستہ ہونے لگتا ہے اور پینٹنگ نازک ہونے لگتی ہے، لیکن رنگ ویسے ہی بنے رہتے ہیں،‘‘ ستیش بتاتے ہیں۔

پہلے قیمتی دھاتوں جیسے سونا اور چاندی کا بھی استعمال ہوتا تھا، لیکن اب وہ بند ہو گیا ہے۔ لال رنگ پھٹکری سے بنتا ہے، نارنجی رنگ کتھے سے، سبز رنگ مہندی کی پتیوں سے اور نیلے رنگ کے لیے نیل کا استعمال ہوتا ہے۔ رنگنے کے عمل کے بعد، کپڑے کو سابرمتی ندی میں دھوتے ہیں تاکہ اضافی رنگ دھل جائے اور پھر تھاولی کے پھولوں کے ساتھ اُبالا جاتا ہے جس سے رنگ پکّا ہو جائے۔ ’’چاہے جتنی بار بھی کپڑے کو دھوئیں، رنگ پھیکا نہیں پڑے گا،‘‘ ستیش نے کہا۔ رنگ بھرتے وقت، فنکاروں کو دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ رنگ تصویر پر نہ پھیلے اور بہے نہیں۔

تصویر بنانے اور خطوط کھینچنے کے لیے بانس کی ٹہنیوں کا استعمال ہوا کرتا تھا، لیکن آج کل پینٹ برش کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلے، کھجور کی ٹہنیوں سے برش بنائے جاتے تھے۔ ٹہنیوں کو چباکر ان کو ریشوں میں توڑا جاتا تھا اور پھر ان کا برش کی طرح استعمال کیا جاتا تھا۔

صدیوں تک، صرف سوتی کپڑے کا ہی استعمال ہوتا تھا، لیکن اب سوتی ریشمی کپڑوں پر بھی کام ہونا شروع ہو گیا ہے۔ سبھی کپڑے احمد آباد کے مقامی بازاروں، ایک کپڑا مرکز، سے خریدے جاتے ہیں۔ ستیش نے ہمیں بتایا کہ دھلنے کے بعد بھی سوتی کپڑوں پر رنگ ٹکا رہتا ہے، کپڑوں پر رنگ مزید اچھی طرح سے چپکتے ہیں۔

’’میں بھی اپنے بچوں کو یہ فن سکھاؤں گا تاکہ وہ اپنے والد کی طرح اس فن کو آگے لے جا سکیں،‘‘ ستیش کہتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے اور اپنی فیملی کی مدد کرنے کے لیے تشفی بخش پیسہ کماتے ہیں۔ ان کا کام گجرات اور اس کے ارد گرد کے کئی مندروں میں دیکھا جا سکتا ہے، اور ان کو پورا یقین ہے کہ اس کی مانگ کبھی کم نہیں ہوگی۔ ’’۵۰ سال بعد بھی لوگ ان پچیڑیوں کی مانگ کریں گے کیوں کہ ان کے بغیر پوجا ادھوری ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Editor's note

اس کہانی کے تمام رپورٹر گاندھی نگر کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن کے طالب علم ہیں: دیوانش ساگر فوٹوگرافی ڈیزائن کا مطالعہ کر رہے ہیں اور ہردے مستری ٹرانسپورٹ اور آٹوموبائل ڈیزائن کے طالب علم ہیں۔ یہ مضمون روایتی فن اور دستکاری میں مشترکہ دلچسپی اور فنکاروں کے ساتھ وقت گزارنے کی ان کی خواہش کی وجہ سے ممکن ہوا ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہ فنکار اپنے آلات، رنگوں اور ڈیزائنوں کے ہنر کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔ اپنے تجربات کے بارے میں بتاتے ہوئے دونوں کہتے ہیں، ’’پاری کے توسط سے ہم نے عام لوگوں کی زندگی کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے، ہمارے ارد گرد کے لوگ جنہیں ہم نظر انداز کر دیتے تھے، ہم ان کے تئیں زیادہ حساس ہو گئے ہیں۔ اس عمل کا سب سے مزیدار حصہ یہ تھا کہ ہم اسی شہر کے اندیکھے حصوں میں جائیں جہاں ہم رہتے ہیں اور اپنی روایتی ثقافت کے اصلی ہیرو کو تلاش کریں۔‘‘ اس کہانی کی تمام تصویریں دیوانش نے کھینچی ہیں۔