ستمبر ۲۰۲۰ میں، شازیہ اختر ۱۰ویں کلاس پاس کرنے والی اپنے گاؤں کی پہلی لڑکی بن گئی تھیں۔ ’’میں نے طے کر لیا تھا کہ ’میں یہ کرکے دکھاؤں گی‘۔‘‘

انہوں نے اپنی تعلیم کی شروعات شوہامہ کے بوائز ہائی اسکول سے کی، جو کہ ریاستی حکومت کے ذریعے چلایا جانے والا ایک اسکول ہے۔ ان کا گھر ڈگنی بل میں ہے، جہاں سے اسکول آنے جانے میں انہیں روزانہ ۱۰ کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا تھا۔ ۱۹ سالہ شازیہ کہتی ہیں، ’’اسکول سے واپس آنے کے بعد میں اتنا تھک جاتی تھی کہ گھر پر پڑھائی نہیں ہو پاتی تھی۔ مجھے مجبوراً اپنی کتابیں بند کرنی پڑتی تھیں۔‘‘

شازیہ کے والد عبدالغنی حجام (۶۵)، اور ماں تاجا بیگم (۶۰) نے کبھی اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی ان کے بھائی بہن کبھی اسکول گئے ہیں۔ شازیہ کے والد کی طرح ہی ان کے دو بھائی، طارق (۳۰) اور مشتاق (۲۷) بھی دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرنے لگے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’’ان کے لیے پیسہ کمانا ضروری تھا‘‘، تاکہ وہ فیملی کی مالی مدد کر سکیں۔

شازیہ کے دونوں بھائی جب چھوٹے تھے، تو سب سے نزدیک کا پرائمری اسکول مشکل سے چار کلومیٹر دور تھا، لیکن وہ ایک اونچی پہاڑی کے اوپر تھا۔ گاؤں کے لوگوں کی بڑی خواہش تھی کہ ان کی بستی کے قریب ایک اسکول کھولا جائے۔ یومیہ اجرت کے لیے شال پر کشیدہ کاری کرنے والے طارق بتاتے ہیں، ’’ہم نے اس اسکول [کو کھلوانے] کے لیے بڑی کوششیں کیں۔ سال ۲۰۰۱ میں، ہم [اسکولی تعلیم کے] ڈائریکٹریٹ گئے اور ان سے یہاں پر ایک اسکول بنانے کے لیے کہا۔‘‘ ان کی کوششیں رنگ لائیں اور ۲۰۰۲ میں ڈگنی بل میں گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول کھول دیا گیا۔ طارق آگے بتاتے ہیں، ’’اگلا چیلنج تھا ٹیچر تلاش کرنا۔‘‘

شروع کے کچھ سالوں تک، یہاں پر صرف ایک مرد ٹیچر تھا جو پورے اسکول کو پڑھایا کرتا تھا۔ لیکن ڈگنی بل چونکہ کافی اونچائی پر واقع ہے، اس لیے کوئی بھی ٹیچر یہاں آنے کو تیار نہیں تھا۔ بستی کے ایک بزرگ، منظور احمد میر کا اندازہ ہے کہ ڈگنی بل میں ۳۵۰ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ اسکول کی دو زرد عمارتیں شاعر مشرق علامہ اقبال، نیلسن منڈیلا اور دیگر شخصیات کے زریں اقوال سے سجی ہوئی ہیں۔ مرکزی عمارت کے داخلی دروازہ پر پینٹ سے کشمیری زبان میں ’عِلمُک آگُر‘ لکھا ہوا ہے، جس کا مطلب ہے ’علم کا منبع‘، لیکن بدقسمتی سے، یہاں سے پاس ہونے کے بعد کچھ ہی طلباء آگے کی اپنی تعلیم جاری رکھ پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

سال ۲۰۰۸ میں یہاں پہلی بار داخلہ لینے والی لڑکیوں میں سے ایک شازیہ بھی تھیں۔ ان کا داخلہ کنڈرگارٹن (کے جی) میں ہوا تھا جب اس اسکول کو اپ گریڈ کرکے اس کا نام گورنمنٹ بوائز مڈل اسکول کر دیا گیا، اور یہاں پر ۸ویں کلاس تک کی تعلیم دی جانے لگی۔ اس وقت اسکول کے ٹیچر بلال وانی تھے، جو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ شازیہ پڑھنے میں بہت اچھی تھیں۔

ڈنگی بل بستی، کشمیر کے گاندربل ضلع میں ہے جہاں کے سارے مکان ایک منزلہ اور ان کی چھتیں ٹن سے بنی ہوئی ہیں؛ ریاست کی راجدھانی سرینگر، یہاں کا سب سے قریبی شہر ہے، لیکن وہاں تک جانے والی گھماؤدار سڑک اکثر ویران رہتی ہے۔ شازیہ کا گھر ملِک محلہ کے آخر میں ہے، جہاں پر وہ اپنی چھ رکنی فیملی کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کے دو کمروں والے گھر کے چاروں طرف ٹن کی ٹوٹی ہوئی چادریں باڑ کے طور پر لگائی گئی ہیں، اور باہر کی طرف اخروٹ اور کیکر (ببول) کے درخت ہیں۔

شازیہ نے ۸ویں جماعت تک کی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی اور اس کے بعد دو دیگر لڑکیوں کے ساتھ وہاں سے پانچ کلومیٹر دور واقع شوہامہ کے بوائز ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا، جہاں سے انہوں نے ۱۰ویں کلاس پاس کیا۔ وہ خوشی سے یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ سب سے با اخلاق اسٹوڈنٹ ہونے کی وجہ سے انہیں ایوارڈ بھی ملا تھا۔

شازیہ وہ ایوارڈ دکھا رہی ہیں جو انہیں سب سے با اخلاق اسٹوڈنٹ ہونے کی وجہ سے اسکول نے دیا تھا۔ تصویر: سبزارہ علی

شازیہ صبح ۶ بجے سو کر اٹھ جاتی تھیں اور اسکول جانے سے پہلے گھر کی صفائی کرتیں اور کھانا پکاتی تھیں۔ ان کی ماں کی صحت ٹھیک نہیں رہتی ہے، اس لیے گھر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے اور ان کی بھابھی ہاجرہ (طارق کی بیوی) کے اوپر ہے۔ اپنے ہائی اسکول کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے شازیہ کہتی ہیں، ’’کبھی کبھی مجھے اپنی گایوں کی دیکھ بھال بھی کرنی پڑتی تھی۔ بھابھی جب گھر پر نہیں ہوتی تھیں، تو سارا کام مجھے ہی کرنا پڑتا تھا۔ اس کی وجہ سے کبھی کبھی اسکول میں صبح کی اسمبلی چھوٹ جاتی تھی۔‘‘ گھر کی دیکھ بھال کرنے کے لیے بعض دفعہ انہیں اسکول سے چھٹی بھی لینی پڑتی تھی۔

ہائی اسکول کے ٹیچر کافی مددگار تھے۔ شازیہ بتاتی ہیں، ’’۸ویں کلاس تک میں نے کوئی خاتون ٹیچر نہیں دیکھی تھی، لیکن اس اسکول میں ایسی کئی ٹیچر تھیں۔ وہ ہماری رہنمائی کرتیں اور ہمیں صلاح و مشورہ دیا کرتی تھیں۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ جن بچوں کے پاس اسکول کی کتاب کاپیوں کے لیے ۱۵۰ روپے نہیں ہوتے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ اس کی وجہ سے وہ اسکول آنا چھوڑ دیں گے، ایسے بچوں کی مدد کے لیے، ’’ہمارے ٹیچر مقامی دکاندار کے پاس کلاس کے نوٹس چھوڑ جایا کرتے تھے، تاکہ ہم اسے دیکھ کر کاپی کر سکیں۔‘‘

شازیہ جب ۱۰ویں کلاس کے امتحان کی تیاری کر رہی تھیں، تبھی کووڈ کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا اعلان ہو گیا اور اسکول بند کر دیے گئے۔ ان کے لیے آن لائن کلاس کرنا اس لیے ممکن نہیں تھا کیوں کہ ان کے گاؤں میں انٹرنیٹ سروس دستیاب نہیں تھی (اسی سال بعد میں ان کے گاؤں میں انٹرنیٹ پہنچا)۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں آن لائن ایک بھی کلاس نہیں کر سکی۔‘‘ لیکن وہ امتحان پاس کرنے کا پختہ ارادہ کر چکی تھیں، لہٰذا انہوں نے اپنے پڑوسی شوکت احمد سے امتحان کی تیاری میں مدد مانگی۔ اسکول کی تعلیم مکمل کرنے والے ان کے گاؤں میں صرف تین لڑکے تھے، جن میں سے ایک شوکت بھی تھے۔ وہ شازیہ کی مدد کرنے کے لیے خوشی خوشی تیار ہو گئے – قریب کے ایک تعمیراتی مقام پر اپنی یومیہ مزدوری کا کام ختم کرنے کے بعد وہ روزانہ شازیہ کے گھر آ کر انہیں پڑھانے لگے۔

شازیہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’سال ۲۰۲۰ میں جب امتحان کے نتائج کا اعلان ہوا، اور پتہ چلا کہ میں پاس ہو گئی ہوں، تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ اگر میں پاس نہیں ہوئی ہوتی، تو دوبارہ کوشش کرتی۔‘‘ وہ یاد کرتی ہیں کہ کیسے ان کے والدین، اساتذہ اور پڑوسیوں نے انہیں ڈھیر ساری مبارکباد دی تھی – کیوں کہ وہ اس امتحان کو پاس کرنے والی واحد لڑکی تھیں۔

ان کے بھائی طارق کہتے ہیں، ’’ہمیں لگا کہ واقعی اس نے کچھ کر دکھایا ہے۔ لوگ ہماری عزت کرنے لگے۔‘‘

خواب ابھی ادھورا ہے

لیکن، دسویں کا امتحان پاس کرنے والی اکیلی لڑکی ہونے کی قیمت بھی چکانی پڑی: سب سے قریبی ہائر سیکنڈری اسکول مشکل سے پانچ کلومیٹر دور، کھِمبر میں ہے، لیکن ۱۱ویں کلاس کے لیے وہاں تک شازیہ کے ساتھ جانے والی کوئی دوسری لڑکی نہیں ہے۔

شازیہ بتاتی ہیں، ’’انہوں نے [گھر والوں نے] مجھ سے پڑھائی چھوڑ دینے کے لیے کہا کیوں کہ اسکول دور ہے اور وہاں تک مجھے اکیلے جانا پڑتا۔‘‘ وزارت تعلیم کے مطابق، سال ۲۰۱۹ سے ۲۰۲۰ کے درمیان، پورے ہندوستان میں ۱ء۱۵ فیصد لڑکیوں نے سیکنڈری اسکول کی پڑھائی چھوڑ دی تھی –  اور جموں و کشمیر میں یہ شرح ۷ء۱۶ فیصد تھی۔ ڈگنی بل جیسے دور دراز کے علاقوں میں، تعلیم حاصل کرنا آج بھی ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔

گھر کے لوگ اپنی فیملی کی سب سے چھوٹی رکن کو دور افتادہ اسکول بھیجنے کو تیار کیوں نہیں تھے، اس بارے میں تفصیل سے بتاتے ہوئے طارق کہتے ہیں، ’’وہ [اسکول] بہت دور تھا اور نقل و حمل کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا، اس لیے ہم لوگ ڈرے ہوئے تھے۔ اگر کوئی پبلک ٹرانسپورٹ ہوتا، تو ہمیں کوئی دقت نہیں تھی۔‘‘ شازیہ بتاتی ہیں کہ اپنی پڑھائی چھوٹنے سے وہ کتنی مایوس ہوئی تھیں۔

شازیہ کو امید تھی کہ حالات جلد ہی بہتر ہو جائیں گے اور اگلے سال ان کی سہیلیاں ۱۱ویں کلاس میں جانے لائق ہو جائیں گی، جس کے بعد وہ بھی ان کے ساتھ اسکول جا سکیں گی۔ اس درمیان انتظار کرتے ہوئے، انہوں نے اپنے بھائی طارق سے کشمیری کشیدہ کاری، سوزنی سیکھی۔ پشمینہ شالوں پر کشیدہ کاری کرکے یومیہ اجرت حاصل کرنے لگیں۔

اگلے سال، یعنی ۲۰۲۱ میں، جب ان کی کوئی بھی سہیلی کوالیفائی نہیں کر پائی، تو شازیہ نے ضد کرنی شروع کر دی کہ انہیں اسکول جانے دیا جائے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میری سہیلیوں میں ویسی کوئی خواہش نہیں ہے جو میرے اندر ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ گھر پر رہنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ لیکن میں لگاتار روتی رہی اور گھر والوں سے فریاد کرتی رہی کہ وہ میرا اسکول میں داخلہ کرا دیں۔ میرے اندر تعلیم حاصل کرنے کی بڑی خواہش تھی۔‘‘

منظور احمد میر کا کہنا ہے کہ شازیہ کی حالت یہاں کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، بلکہ خود ان کی بیٹی کو بھی ۸ویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑنا پڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں اپنی بیٹی کو کھِمبر یا بکورہ گاؤں کے اسکول میں چھوڑنے کے بعد، اپنے کام پر جا سکتا تھا۔ لیکن اسکول کی چھٹی ہونے کے وقت میں کام پر ہی ہوتا اور اسے وہاں سے لے نہیں پاتا۔ اسی لیے، اسے پڑھائی چھوڑ کر گھر بیٹھنا پڑا۔‘‘

آخرکار، مارچ ۲۰۲۱ میں شازیہ کو کھِمبر کے بوائز ہائر سیکنڈری اسکول میں، ۱۱ویں کلاس میں داخلہ مل گیا۔ ان کے بھائی یا والد میں سے کوئی ایک، چار کلومیٹر پیدل چل کر انہیں بکورہ تک چھوڑنے جاتا۔ وہاں سے وہ اسی اسکول میں پڑھنے والی دوسری لڑکیوں کے ساتھ، آگے کی تین کلومیٹر کی دوری بس سے یا پیدل چل کر طے کرتیں۔ طارق کہتے ہیں، ’’ہمیں اپنا کام چھوڑ کر اس کے ساتھ جانا پڑتا تھا۔‘‘

شازیہ نے مضمون کے طور پر فزیکل ایجوکیشن، انگلش، پولیٹکل سائنس اور اردو کا انتخاب کیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں نے فزیکل ایجوکیشن اس لیے لیا کیوں کہ کھیل مجھے بہت پسند ہیں۔‘‘ اسپورٹس کھیلنے کا موقع انہیں پہلی بار ملا تھا۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’مجھے ایک ہی چیز پریشان کرتی تھی کہ میں [اپنے گاؤں سے] اکیلی ہوں۔‘‘

اپنے بھائی، طارق (دائیں) کے ساتھ سوزنی کا کام کرتے ہوئے شازیہ۔ ان کی ماں، تاجا (بائیں) کی صحت ٹھیک نہیں رہتی ہے، اس لیے گھر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے اور ان کی بھابھی ہاجرہ (طارق کی بیوی) کے اوپر ہے۔ تصویر: سبزارہ علی

لیکن داخلہ لینے کے دو مہینے بعد ہی، مئی ۲۰۲۱ میں شازیہ کا نام اسکول سے کاٹ دیا گیا۔ طارق اور عبدالغنی نے جب اس کی وجہ معلوم کی، تو انہیں بتایا گیا کہ شازیہ نے چونکہ ایک سال ڈراپ کر دیا تھا اس لیے وہ اس کلاس میں داخلہ کی اہل نہیں ہیں۔ عبدالغنی بتاتے ہیں، ’’آرڈر آیا ہوا تھا کہ جن بچوں نے ایک سال ڈراپ کر دیا ہے انہیں ریگولر اسکول میں داخلہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ انہیں نہیں معلوم کہ ایسا آخر کیوں ہوا اور آگے کیا کیا جائے۔

طارق بتاتے ہیں کہ وہ لوگ ہرود [خزاں] کے موسم میں کام کر رہے تھے جب اسکول کی طرف سے بلاوا آیا۔ شازیہ کے ساتھ ان کے والد اسکول گئے اور فیس [۱۵۰۰ روپے] واپس لے کر لوٹ آئے۔ شازیہ کہتی ہیں، ’’اس واقعہ کے بعد میں کئی مہینے تک پریشان رہی۔‘‘ حال ہی میں انہیں اسکول سے ڈسچارج سرٹیفکیٹ بھی مل گیا ہے۔

اسکول والوں نے شازیہ کو صلاح دی کہ وہ گھر پر رہ کر پڑھائی کریں اور  امتحان میں پرائیویٹ امیدوار کے طور پر شامل ہوں۔ اس کے لیے سرینگر میں واقع ’جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن‘ کے دفتر میں درخواست جمع کرانی پڑتی ہے۔ اس رپورٹر کے ذریعے جون ۲۰۲۲ میں چیک کرنے پر پتہ چلاکہ شازیہ کی فیملی نے ابھی تک اُس دفتر کا دورہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے اسکول میں داخلہ کے لیے کوئی کوشش کی ہے۔

دریں اثنا، شازیہ کشیدہ کاری سیکھنے اور اس کی مصنوعات تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ اس سے ہر مہینے ان کی تقریباً ۱۵۰۰ روپے کی کمائی ہو جاتی ہے۔ طارق کہتے ہیں، ’’ٹیچروں نے اگر اسے باقاعدہ داخلہ دے دیا ہوتا، تو وہ کھمبر میں اپنی تعلیم جاری رکھ پاتی۔ ہماری خواہش ہے کہ وہ ۱۲ویں کلاس تک پڑھائی مکمل کرے۔ ہم نہیں چاہتے کہ وہ کوئی نوکری کرے۔‘‘

ان تمام ناکامیوں کے باوجود، شازیہ نے امید نہیں چھوڑی ہے۔ وہ آرٹ اسکول جانا چاہتی ہیں، اور ایک ٹیچر بننے کے بعد اپنے آس پاس کی دیگر لڑکیوں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے میں ان کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے سامنے بہت سے مسائل ہیں، لیکن میرے خواب بھی ہیں۔‘‘ وہ اس بات سے باخبر ہیں کہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے انہیں ۱۲ویں کلاس تک کی تعلیم مکمل کرنی ہی پڑے گی۔

پاری کے ہوم پیج پر واپس جانے کے لیے، یہاں کلک کریں

Editor's note

سبزارہ علی، سرینگر کے ثورہ میں واقع گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری اسکول میں ۱۲ویں کلاس کی اسٹوڈنٹ ہیں۔ یہ اسٹوری انہوں نے ’پاری ایجوکیشن‘ کی انٹرن شپ کے دوران، سات مہینے میں مکمل کی تھی۔

وہ کہتی ہیں، ’’شرمیلی ہونے کی وجہ سے، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ لوگوں سے جڑ پاؤں گی۔ گزشتہ کچھ مہینوں کے تجربات نے مجھے دوسرے کی باتوں کو غور سے سننے اور اپنی سوچ بدلنے کا موقع عطا کیا۔ مثال کے طور پر، پہلے میں یہ سوچا کرتی تھی کہ سماج میں بدنامی کی وجہ سے لڑکیاں اپنی تعلیم کو جاری نہیں رکھ پاتی ہیں۔ لیکن اس اسٹوری کی رپورٹنگ کرنے، اور چھوٹی چھوٹی تفصیلات معلوم کرنے کے بعد میری سوچ اب پوری طرح بدل چکی ہے۔ اس نے مجھے اپنے آس پاس کی معمولی چیزوں کا بھی مشاہدہ کرنا سکھایا، جیسے کہ میرے علاقے کے زیادہ تر سرکاری اسکولوں کا نام ’بوائز اسکول‘ کیوں ہے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

محمد قمر تبریز، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ہندی/اردو کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی، دو کتابوں کے مصنف ہیں، اور ’روزنامہ میرا وطن‘، ’راشٹریہ سہارا‘، ’چوتھی دنیا‘ اور ’اودھ نامہ‘ جیسے اخبارات سے منسلک رہے ہیں۔ ان کے پاس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے۔