’’جب لوگ لکڑی پر کیا گیا روغن کا آرائشی کام دیکھتے ہیں، تو وہ پوچھتے ہیں کہ کیا میں نے برش اور تیل کے پینٹ سے یہ شکلیں بنائی ہیں،‘‘ گجرات کے کچھّ ضلع کے ایک گاؤں، نیرونا کے روغن دستکار، ۴۰ سالہ بھاوِک بھچیا واڈھا کہتے ہیں۔ لیکن درحقیقت، وہ بتاتے ہیں، اسے لیتھ (مشین) سے بنایا جاتا ہے، جس کے اوپر لاکھ کی چھڑی رکھی جاتی ہے، جو لکڑی پر بہتی ہے اور مختلف قسم کی ٹیڑھی میڑھی شکل بناتی ہے۔

بھاوک بھائی کا سب سے چھوٹا بیٹا، لکڑی پر روغن کو رنگنے کا اپنا ہنر دکھاتے ہوئے۔ تصویر: اشون سریش

بھاوک بھائی (جیسا کہ انہیں اس برادری میں کہا جاتا ہے) ۳۰ برسوں سے اس دستکاری کا کام کر رہے ہیں۔ ’’میں بھمردو (لٹو) بنانے میں ماہر ہوں۔ ایک بار میں نے ایسا لٹو بنایا جو پورے سات منٹ تک گھومتا رہا،‘‘ انہوں نے کہا۔ یہاں تک کہ بھاوک بھائی، جتنے لمبے وقت تک آپ اسے گھمانا چاہیں، اس کے مطابق لٹو بنا سکتے ہیں۔

نیرونا میں چھ سے سات مزید کنبے ہیں، جو روغن دستکاری کا کام کرتے ہیں۔ وہ سبھی اندرا آواس یوجنا کے تحت سیپ کی شکل میں بنائے گئے سیمنٹ کے گھروں کی ایک بستی میں رہتے ہیں۔ ان کے گھر ایک دوسرے کے بغل میں ہیں، بالکل قریب اور نیم دائرہ کار شکل میں بنے ہوئے ہیں؛ گھروں کے درمیان خالی زمین ہے، جہاں وہ کام کرتے ہیں۔

کچھّ کے نیرونا میں ایک گھر۔ اس قسم کی بستیوں کو نیم دائرہ کار شکل میں بنایا گیا ہے، جہاں بھاوک بھائی اور کچھ دیگر دستکار، لکڑی پر روغن کا کام کرتے ہیں۔ تصویر اشون کمار

’’راجستھان اور کچھ دیگر ریاستوں میں بھی روغن دستکاری کی جاتی ہے،‘‘ بھاوک بھائی کہتے ہیں۔ ’’[دیگر] زیادہ تر بنیادی رنگ کے اوپر ایک پرت میں لکڑی کو رنگتے ہیں۔ ہمارے کام میں ڈیزائن کی بنیاد پر، دو یا اس سے زیادہ پرتیں ہوتی ہیں۔ ہم نے وقت کے ساتھ اپنے خود کے پیٹرن تیار کیے ہیں۔‘‘

بھاوک بھائی کا تعلق واڈھا آدیواسی برادری سے ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے والد اور ان کی فیملی پاکستان سے آئی تھی۔ میرے دادا کے سات بھائی تھے، جو پاکستان میں اس دستکاری کو کرتے تھے۔ ہم ہندوستان میں مختلف مقامات پر گئے ہیں، اور مختلف گاؤوں میں رہتے ہیں۔ ۲۰۰۱ کے بھُج زلزلہ کے بعد ہم نیرونا میں بس گئے۔‘‘

جب ہم ان کے گاؤں گئے، تو بستی کے چاروں طرف جھاڑیوں سے ہوکر خشک گرم ہوا چل رہی ہے۔ عورتیں اپنے روزمرہ کے کاموں کے درمیان آرام کر رہی ہیں، بزرگ لوگوں کے ساتھ چارپائی پر اپنے نوزائیدہ بچوں کو پکڑے بیٹھی ہیں، اور بڑے بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔ وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ یہاں کے آس پاس کے کئی بچے کبھی اسکول نہیں گئے۔ نیرونا کی ۵۷۱۰ لوگوں کی آبادی میں صرف ۵۳ فیصد تعلیم یافتہ ہیں۔ اس کے باوجود، بھاوک بھائی اور ان کی بیوی راہیما نے یقینی بنایا ہے کہ ان کے تینوں بیٹے اسکول جائیں۔ ’’میں اس سال اپنی بیٹی جیوتسنا کو اسکول بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا تھا، لیکن کووڈ وبائی مرض کے سبب یہ ممکن نہیں لگتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ جولائی میں ان کے گاؤں میں کورونا کے تین معاملے پائے گئے تھے۔

ہمارے کیمرہ کو دیکھ کر، ریشما، ایک چھوٹی لڑکی، ہمیں انتظار کرنے کا اشارہ کرتی ہے۔ وہ دوڑ کر اپنی پسندیدہ کڑھائی دار چُنری (دوپٹہ) لیکر آتی ہے، اسے اپنے سر اور کندھوں پر لپیٹتی ہے اور مسکراتی ہے، اب وہ فوٹو کھنچوانے کے لیے تیار ہے۔

کیمرہ کے لیے پوز دیتی ہوئی ریشما اور پڑوس کے دیگر بچے۔ تصویر: اشون کمار

بھاوک بھائی پہلے ایک پہلوان تھے اور پورے کچھ میں گاؤں کی کُشتی میں حصہ لیتے تھے۔ ایک دن انہیں فون آیا کہ پولیس نے ان کے بھائی کو اٹھا لیا ہے۔ ’’میں حیران اور فکرمند تھا،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’لیکن انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے والد نے لکڑی پر روغن کے کام کے لیے ریاست سے انعام جیتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم دونوں اسے لینے پولیس اسٹیشن آئیں۔ اس پہچان کے بعد، میں اپنے کام کو مزید سنجیدگی سے کرنے لگا۔‘‘

ھاوک بھائی کے تین بیٹے اُن سے یہ دستکاری سیکھ رہے ہیں۔ ’’ان کی مدد سے، میں ایک دن میں تین سے چار چیزیں بنا سکتا ہوں،‘‘ انہوں نے کہا۔ ان کا سب سے بڑا بیٹا، ۱۷ سالہ دانجی باورچی خانہ کے برتن بنا سکتا ہے اور جئیش بھائی جوردار فلم کے ایک سین کے لیے اسے اپنے ذریعہ بنائے گئے ایک پیس کے ساتھ فلمایا گیا تھا۔ یہ فلم ۲۰۲۰ میں ریلیز ہونے والی ہے۔

دستکاری

روغن لکڑی کی چیزیں بنانے کے لیے، سب سے پہلے لکڑی کو چھیلا اور اسے من سائز کا بنایا جاتا ہے، پھر لیتھ (مشین) پر چلایا جاتا ہے۔ لاکھ کی چھڑی اور چلتی ہوئی لیتھ (مشین) سے جو گھساؤ ہوتا ہے، وہ الگ الگ رنگوں کی پرتوں کو اُبھارتا ہے۔ آخر میں، روغن کی لکڑی کو چکنائی دینے کے لیے تیل سے چمکایاجاتا ہے۔

پہلے، اس دستکاری کے لیے جنگل سے لکڑی مل جاتی تھی – مقامی ببول کے درخت پسند کیے جاتے ہیں۔ ’’آج کل جنگلات اور کھیتوں سے لکڑی لینے کے لیے ہمیں اجازت لینی پڑتی ہے اور اس کے ساتھ ہمیں انہیں اس کی قیمت بھی ادا کرنی ہوتی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’[کھیتوں کے] یہ درخت عام طور پر چھوٹے ہوتے ہیں، اس لیے ہم ان کی لکڑی کو باورچی خانہ کے برتن بنانے میں استعمال کرتے ہیں۔‘‘

کرسیوں جیسی بڑی مصنوعات بنانے کے لیے، وہ بھُج کے بازاروں سے لکڑی خریدتے ہیں، جہاں یہ بڑی ناپ اور مقدار میں آسانی سے دستیاب ہیں۔ بھُج کچھّ ضلع کا ہیڈکوارٹر ہے اور نیرونا سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور ہے۔

روغن لاکھ سے بنایا جاتا ہے، جو ایک ایسا مادّہ ہے جسے لاکھ کے کیڑے، کچھّ میں خود کو اور بیر کے درختوں پر دیے گئے اپنے انڈوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے جسم سے نکالتے ہیں۔ لاکھ اُس درخت کی شاخوں پر بھی پرت چڑھاتے ہیں۔ اس کو بعد میں نکال کر کوٹا جاتا ہے، اور اس میں سے فضلے کو الگ کیا جاتا ہے۔ ایک کلوگرام لاکھ سے ۲۵۰ گرام روغن پاؤڈر بنتا ہے۔

پھر پاؤڈر کو رنگ والے سیال کے ساتھ گرم کیا جاتا ہے اور مونگ کے تیل کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ ٹھنڈا ہونے پر، آمیزہ روغن بن جاتا ہے – رنگ کی پنسل جیسی چھڑی۔ یہ کام عام طور پر راہیما – بھاوک بھائی کی بیوی – جیسی واڈھا خواتین کے ذریعہ کیا جاتا ہے، جو گھریلو کاموں کے درمیان اس میں مدد کرتی ہیں۔

کچھ رنگ – جیسے سفید اور نیلا – اب کیمیکل سے بنائے جاتے ہیں، جب کہ بقیہ اب بھی قدرتی مادّوں سے بنائے جاتے ہیں: پیلے رنگ کے لیے ہلدی ڈالی جاتی ہے اور کالے رنگ کے لیے کوئلہ۔ ’’میں نئے رنگ بنانے کے لیے بھی ان بنیادی رنگوں کو ملاتا ہوں – پیلے اور لال رنگ کو ملاکر نارنجی رنگ بنایا جاتا ہے،‘‘ بھاوک بھائی نے بتایا۔

وراثت میں ملا ہنر

’’لکڑی پر روغن پینٹنگ جیسی روایتی دستکاری کبھی سکھائی نہیں جاتی ہے،‘‘ بھاوک بھائی نے کہا۔ ’’آپ اپنے والدین کو دیکھ کر کم عمرمیں انہیں سیکھنے لگتے ہیں۔‘‘ وہ اپنے والد، ۷۶ سالہ بھاچیا کھمیشا واڈھا کو روایتی چارپائی (جسے کپاس کی پٹی یا رسیوں سے بُنا جاتا ہے)، سندور رکھنے والے ڈبے اور شادیوں میں تحفے کے طور پر دیے جانے والے دیگر سامان بناتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ ’’ادائیگی کے طور پر ہمیں کپڑے، اناج یا پیسے دیے جاتے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

دھیرے دھیرے، جب اس دستکاری کو مقبولیت حاصل ہونے لگی، تو بھاوک بھائی کے والد بیلن، سل بٹہ، چمچہاور کڑچھی جیسے برتن بنانے لگے۔ تقریباً ۶۰ سال کام کرنے کے بعد، اب ان کے والد کا کام دھیما ہو گیا ہے، ان کی کمزور ہوتی آنکھوں نے ان کا اس بہترین کام کو برقرار رکھنا مشکل بنا دیا ہے۔

اس دستکاری سے یومیہ آمدنی ۱۵۰ روپے سے کم ہوتی تھی، اس لیے بھاوک بھائی اور ان کی فیملی کے دیگر لوگ بازار میں اناج کی بوریاں ڈھونے کا کام بھی کرتے تھے۔ ’’میرے والد نے برے دن دیکھے ہیں، اور بچپن میں ہم کبھی کبھی تین چار دن تک بھوکے سوتے تھے،‘‘ انہوں نے بتایا۔

کچھّ میں سیاحتی موسم، ان کے لیے اپنے سامان بیچنے کا واحد موقع ہوا کرتا تھا، کیوں کہ انہوں نے مارکیٹنگ اور سپلائی کے طریقے تیار نہیں کیے تھے۔ اب حالات بہتر ہیں کیوں کہ ان کے جیسے واڈھا دستکار کھمیر کے ساتھ کام کرتے ہیں،جو کہ کُکما میں واقع ایک تنظیم ہے جو روغن کی لکڑی کی مصنوعات کی تشہیر اور فروخت کا کام کرتی ہے۔ کھمیر کچے مال کی خرید، قیمتوں کا تعین اور ان کی دستکاری کی مارکیٹنگ میں مدد کرتی ہے۔

برتن اور فرنیچر کے ساتھ، دستکار مانگ کے مطابق نئے ڈیزائن یا سامان بھی بناتے ہیں۔ کبھی کبھی گاہک انہیں حوالہ کے لیے تصویر بناکر دیتے ہیں۔ بھاوک بھائی وہاٹس ایپ کے استعمال سے احمد آباد، ممبئی اور بھوپال میں اپنے گاہکوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اور ان کی فیملی کے دیگر دستکاروں نے شہروں کی نمائشوں میں بھی فروخت کی ہے۔

لکڑی پر روغن کا رنگین فن؛ کچھّ کی واڈھا برادری کے ذریعہ بنائے گئے برتن

آج، بھاوک بھائی سمیت نیرونا کی واڈھا برادری کے تقریباً ۱۵ لوگ اب بھی یہ دستکاری کرتے ہیں؛ ان کا ایک رشتہ دار پاس کے مشریاڈو گاؤں میں یہ کام کرتا ہے۔ وہ کئی چنوتیوں کا سامنا کر رہے ہیں کیوں کہ وہ سیاحت کے کاروبار پر منحصر ہیں، جو لاک ڈاؤن اور سفر اور سیاحت پر حالیہ پابندیوں کے سبب بند ہے۔ کئی واڈھا روزگار کے بہتر مواقع کی تلاش میں مہاجرت کر چکے ہیں۔

حالانکہ، بھاوک بھائی نے امید نہیں چھوڑی ہے۔ اپنے بچوں کو دستکاری سکھانے کے علاوہ، وہ ٹریننگ ورکشاپ چلاتے ہیں اور نئے شاگردوں کو کام سکھاتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کی دستکاروں کی برادری اپنے امتیاز کو دوبارہ حاصل کر رہی ہے، دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ رابطہ میں ہے اور زیورات بنانے، فرنیچر، رنگ اور شکل کی تلاش جیسے شعبوں میں اختراع کر رہی ہے۔ ’’گاہک میرے کام کی تعریف کرتے ہیں اور اس سے مجھے دستکاری کو جاری رکھنے اور اسے بہتر بنانے کے لیے حوصلہ ملتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

Editor's note

سربھی سنگھل بنگلورو کے سرشٹی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس، ڈیزائن اینڈ ٹیکنالوجی کے انفارمیشن آرٹس اینڈ انفارمیشن ڈیزائن پریکٹسز کی سال اوّل کی طالبہ ہیں۔ اپنے پروجیکٹ، ’نریٹوز، ایمرشن اینڈ انفارمیشن‘ کے تحت، انہوں نے ایک دستکار کی زندگی کے سفر کے ذریعہ کچھّ میں روغن لکڑی کی دستکاری کی پڑتال کی۔وہ کہتی ہیں: ’’پاری کے ساتھ میں طریق عمل اور چنوتیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ، گہرائی سے سوچ پائی اور بہتر وژوئل کہانی پیش کر پائی۔ میں نے اپنے انٹرویو کے عمل اور سوالات پر مزید کام کیا، اور دستکاری کے بارے میں مزید تفصیلات لکھنے کے لیے، فالو اَپ کال کیے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز
ک صحافی، دو کتابوں کے مصنف ہیں، اور ’روزنامہ میرا وطن‘، ’راشٹریہ سہارا‘، ’چوتھی دنیا‘ اور ’اودھ نامہ‘ جیسے اخبارات سے منسلک رہے ہیں۔ ان کے پاس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے۔