’’زیادہ تر مچھلیاں جا چکی ہیں۔ ہم بچی ہوئی مچھلیوں کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں،‘‘ کندن کڈوو کے ایک ۵۲ سالہ ماہی گیر، لائیجو سیباستین نے اپنے گھر کے پاس پڈشیکھرم (ماہی پروری کے بڑے آبی علاقے) کو دیکھتے ہوئے کہا۔ پڈشیکھرم کے مالک کے ساتھ لائیجو نے ایک معاہدہ کر رکھا ہے: وہ یہاں پر مچھلی تبھی پکڑ سکتے ہیں جب اس کا مالک اپنا سالانہ حصہ جمع کر لے۔ ’’وہ ہر موسم میں یہاں سے سینکڑوں کلو مچھلی لے جاتے ہیں، اور کورونا وائرس بھی انہیں اپنا حصہ لے جانے سے نہیں روک پایا ہے۔ ہمیں زیادہ نہیں ملے گا،‘‘ انہوں نے فکرمند ہوتے ہوئے کہا۔

لائیجو عام طور پر پاس کی جھیلوں اور پوژھوں (لاکادِو سمندر) سے مچھلی پکڑ کر اپنی کمی کو پورا کرتے ہیں۔ حالانکہ، کیرالہ حکومت کے ذریعے ۲۳ مارچ ۲۰۲۰ کو لاک ڈاؤن کے اعلان نے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ ’’میں اپنی ونجی (ڈونگی) لیکر باہر جا سکتا ہوں۔ لیکن اس کا کیا استعمال ہے،‘‘ انہوں نے حکومت کے یکم مئی کے فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا، جس کے تحت روایتی کشتیوں کو چلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ انہوں نے اپنے سامنے پھیلے وسیع آبی علاقہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’مچھلی نہیں بچی ہے، اس لیے مجھے کچھ نہیں ملے گا۔‘‘

لائیجو اپنے گھر کے سامنے کے چھوٹے نالے سے اپنی ونجی نکالتے ہیں، جو بڑے پوژھا یا آبی گزرگاہ کی طرف جاتا ہے

کیرالہ کی سمندری مچھلیوں کی مردم شماری ۲۰۱۰ کے مطابق، مچھلی پکڑنے والے کل ۱۱۸۹۳۷ کنبے ہیں، جن میں سے ۵۵ فیصد خط افلاس کے نیچے (بی پی ایل) ہیں۔ لاک ڈاؤن سے متاثر ماہی گیر کنبوں کے لیے راحت رسانی کے طور پر، ریاستی حکومت نے ۲ ہزار روپے کی یک مشت مالی مدد فراہم کی تھی۔ لائیجو اس رقم کو حاصل کرنے والے اپنے گاؤں کے کئی لوگوں میں سے ایک تھے؛ ان کی فیملی کو پی ڈی ایس سے سبسڈی والا راشن اب بھی مل رہا ہے۔

لائیجو چوتھی نسل کے مچھیرے ہیں اور اپنی چار رکنی فیملی کے ساتھ کندن کڈوو میں رہتے ہیں – یہ ماہی گیروں کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جہاں کی آبادی ۱۴۴۴ ہے۔ لائیجو کی بیوی جینا، کوچی میں ایک گھریلو ملازمہ ہیں اور انہیں کام کرنے کے لیے ہر روز سفر کرنا پڑتا ہے۔ اب، لاک ڈاؤن کے بعد کام بند ہوجانے سے فیملی کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔

بحر ہند کے پانی کے ساتھ، ایرناکولم سے تقریباً ۳۵ کلومیٹر دور، کندن کڈوو کے مچھیرے جھینگا، کیکڑے اور سمندری باس اور کریمین جیسی بڑی مچھلیاں پکڑنے کے لیے پڈشیکھرم کے کھارے پانی پر منحصر رہتے ہیں۔ ’’اس ۶۰۰ ایکڑ زمین کا مالک ایک ہی شخص ہے۔ اس قسم کے اور بھی کئی علاقے ہیں جن کی حفاظت گارڈ کرتے ہیں،‘‘ لائیجو نے بتایا۔

لائیجو مالکوں کے لیے کام نہیں کرتے، کیوں کہ اس کی وجہ سے انہیں ایک کاروباری معاہدہ کی بنیاد پر مچھلی پکڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑتا، جس میں مچھلی پکڑنے کی مقدار پہلے سے ہی طے کر دی جاتی ہے۔ ’’کوئی آدمی کاروباری ضرورتوں کی بنیاد پر مچھلی نہیں پکڑ سکتا! آپ کو مانسون کی بارش اور ہواؤں پر دھیان دینا ہوگا اور مناسب سائز کی کشتیوں کا استعمال کرنا ہوگا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اکثر معاہدہ ختم ہونے کے وقت، زیادہ سے زیادہ کمائی کرنے کی جلد بازی میں حد سے زیادہ مچھلیاں پکڑنا عام بات ہے، اور یہ بوجھ مالکوں کے لیے کام کرنے والے مچھیروں پر پڑتا ہے۔

کندن کڈوو کا ایک ماہی گیر تھوڑی سی مچھلیوں کے ساتھ لوٹ رہا ہے

چکّر دار کھیتی: ایک بار دھان ایک بار مچھلی

پڈشیکھرم کا استعمال روایتی طور پر دھان کی کھیتی اور زرعی کاشتکاری کے لیے دائرہ نما بنیاد پر کیا جاتا رہا ہے۔ ہر دور چار سے آٹھ مہینے تک رہتا ہے۔ کیٹّو (ماہی پروری کے علاقے) بنانے کے لیے آبی ذرائع سے پمپ کے ذریعے پانی لایا جاتا ہے اور اس کا استعمال ہر سال جون سے نومبر تک آبی زراعت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ سال کے باقی دنوں میں اسے دھان کی کھیتی کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پوکّلی چاول کی ایک قسم بوئی جاتی ہے کیوں کہ فصل کٹائی کے بعد اس کے ڈنٹھل کا استعمال مچھلی کے چارے کے طور پر کیا جا سکتا ہے؛ اس کے علاوہ، چھوٹی مچھلیاں اور مچھلیوں کے فضلے فصل کے لیے کھاد کا کام کرتے ہیں۔

دھان کے ساتھ باری باری کھیتی کی یہ روایت، کچھ چھوٹے علاقوں کو چھوڑ کر، رک گئی ہے اور اب یہ سال بھر چلنے والا مچھلی/جھینگا کاروبار بن گیا ہے۔ انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ کے تحت کام کرنے والے تحقیقی ادارہ، کرشی وگیان کیندر، ایرناکولم کا اندازہ ہے کہ دھان-جھینگا مچھلی کی کاشتکاری سے فی ہیکٹیئر تقریباً ایک اعشاریہ تین لاکھ روپے کی کمائی ہوتی ہے، جو کہ صرف دھان کی کھیتی کے مقابلے کہیں زیادہ منافع بخش متبادل ہے۔ ریاست، پڈشیکھرم میں استعمال کیے جانے والے بیج کی لاگت اور مچھلی پکڑنے کے آلات پر سبسڈی اور گرانٹ مہیا کرتی ہے۔ ماہی پروری کرنے والوں کو آبی زراعت میں استعمال کیے جانے والے بیجوں کی قیمت پر ۴۰ فیصد کی بھاری چھوٹ ملتی ہے۔

لاک ڈاؤن اور مچھلی پکڑنے پر پابندی لگائے جانے سے پہلے، لائیجو مچھلی پکڑنے والے بڑے جہازوں کے ساتھ بحر ہند میں مزید اندر تک جاکر بڑی مچھلیاں پکڑتے اور زیادہ وزن کے ساتھ لوٹتے تھے، جس سے ان کی اضافی کمائی ہو جایا کرتی تھی۔ اب وہ متبادل بھی دستیاب نہیں ہے کیوں کہ لاک ڈاؤن کا اعلان ہوتے ہی ان کے زیادہ تر ساتھی تمل ناڈو میں اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ ’’جہاز اگر سمندر میں جانے کو تیار ہو، تب بھی ہمیں مچھلیاں پکڑنے کے لیے روانہ ہونے سے پہلے اپنے آدمیوں کو تمل ناڈو سے اٹھانا ہوگا،‘‘ انہوں نے کہا۔

وافر مقدار میں مچھلی پکڑنا مسئلہ کا صرف ایک پہلو ہے؛ ذخیرہ اور نقل و حمل کو لیکر بھی چنوتیاں ہیں، اور مانگ میں ابھی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ یو این سی ٹی ڈی کی ایک رپورٹ کے مطابق، چین جانے والی ہندوستانی جھینگوں کی کھیپ میں پہلے ہی ۱۰-۱۵ فیصد کی کمی آئی ہے۔ نیشنل فشریز ڈیولپمنٹ بورڈ کی ویب سائٹ پر جانے سے پتا چلتا ہے کہ مچھلی اور مچھلی سے متعلق پیداواروں کی برآمدات ۴۵۱۰۶ اعشاریہ ۸۹ کروڑ روپے ہے، جو کہ زرعی برآمداتوں کا تقریباً ۲۰ فیصد اور عام طور سے تمام برآمداتوں کا ۱۰ فیصد ہے۔

’’ہم سمندر میں جو مچھلی پکڑتے ہیں وہ اعلیٰ معیار کی، اونچی قیمت والی ہوتی ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ ریاست کے باہر چین، سنگاپور اور خلیج فارس میں برآمد کیا جاتا ہے؛ زیادہ تر جھینگے وہاں جاتے ہیں،‘‘ لائیجو نے کہا۔ ’’اب جہاز بندرگاہ پر ہی کھڑے رہتے ہیں۔‘‘

پکڑی گئی مچھلیوں کو فروخت کرنے میں اپنی الگ چنوتیاں ہیں کیوں کہ مچھلی کے محکمہ کے ذریعے لازمی بنائے گئے سماجی دوری کے ضابطوں کے سبب بچولیوں کو (جو اکثر مچھلیوں کی صاف صفائی بھی کرتے ہیں) قرض پر بیچنے کا پرانا نظام اب ممکن نہیں ہے۔ ’’کورونا وائرس سے پہلے، میں اپنے ذریعے پکڑی گئی مچھلیوں کو بازار لے جاتا اور بس کسی ایجنٹ کو ڈھونڈتا اور اس سے کہتا کہ وہ مجھے ان کی مناسب قیمت دلوا دے؛ ہم سبھی جانتے ہیں کہ قیمت مناسب نہیں تھی، لیکن تب وہ ہمیں کچھ پیسے بھی دیتا تھا،‘‘ لائیجو نے کہا۔

ماہی پروری اور سمندری غذا کا سپلائی سلسلہ کافی پیچیدہ ہے، خاص طور سے مقامی سطح پر، اور لاک ڈاؤن ہر مرحلہ کو متاثر کر رہا ہے۔ پکڑی گئی مچھلیوں کی نیلامی ساحلی مراکز پر ہوتی ہے اور پھر مچھلیوں کو وہاں سے آگے لے جانے کا بوجھ خریدار پر پڑتا ہے۔

’’ذخیرہ کی کمی ایک بارہ ماسی مسئلہ ہے۔ ذخیرہ کرنے کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے، جہاں مچھلیوں کو پکڑنے کے بعد رکھا جائے،‘‘ سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف فشریز ٹیکنالوجی کی پرنسپل سائنسداں ڈاکٹر نکیتا گوپال نے کہا۔

کووڈ کی تشویشوں کے سبب مچھلی کی نیلامی پر پابندی لگاتے ہوئے، سرکار نے مچھلی کی قیمت طے کی ہے۔ اس طرح کی غیر یقینی صورتحال کے لیے متعینہ قیمت، لاک ڈاؤن سے پہلے پر اعتماد ہوتی، لیکن اب اس سے صرف ان لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے جو وافر مقدار میں مچھلیاں پکڑ کر لاتے ہیں اور اسے شہر کے بازاروں میں پہنچانے میں کامیاب ہیں۔

کوچی کے مرکز میں واقع کدونتھرا مچھلی بازار میں ۴۷ سالہ جیسّی کے اور ان کی بیوی، ۴۴ سالہ شیبو کے کی ایک دکان ہے، جہاں وہ جیسّی کے ذریعے لائی گئی مچھلیوں کو فروخت کرتے ہیں۔ اس بازار میں ۳-۴ دیگر ماہی فروش ہیں، دیگر دکانوں پر گوشت، تازی سبزیاں اور یومیہ کیرانے کا سامان فروخت ہوتا ہے۔ سرکاری ضابطہ کے مطابق، مچھلی بازاروں کو صبح ۷ بجے سے ۱۱ بجے تک ہی کام کرنے کی اجازت ہے۔ یہ مقررہ وقت ۳ اپریل کو کوژی کوڈ کے مرکزی مچھلی بازار کو دوبارہ کھولنے کے بعد امڈی بھیڑ کو دیکھ کر نافذ کیا گیا، جس کے نتیجہ میں اہلکاروں کو اسے پوری طرح سے بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

’’کئی ہفتوں تک فروخت نہیں کر پانے کے سبب ہمیں کافی پیسے کا نقصان ہو چکا ہے۔ مچھلیوں کو محفوظ کرنے کے لیے ہمارے پاس بڑے فریزر نہیں ہیں، اس لیے ہم جو فروخت نہیں کرپاتے ہیں، وہ ہمارا نقصان ہے،‘‘ جیسّی نے کہا، جو آخرکار بیچنے کا پرمٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ انہیں مچھلی کو ۱۲ کلومیٹر دور واقع بازار تک لے جانے کے لیے بھی پولس سے پرمٹ لینا پڑا۔ ان کا بیٹا آٹورکشہ چلاتا ہے، اس لیے وہ مچھلیاں لے جانے میں کامیاب رہے۔

مچھلیوں کی مقدار کم ہوتے ہی قیمتیں تقریباً دو گنی ہو گئی ہیں، اور جیسّی اور شیبو جیسے فروشندوں کو اونچی قیمتیں پانے کے لیے اس کا بوجھ اپنے خریداروں پر ڈالنا ہوگا۔ ’’اونچی قیمتوں پر زیادہ لوگ نہیں خریدیں گے،‘‘ شیبو نے کہا، جو دوپہر کے وقت بازار بند ہونے سے پہلے گاہکوں کو تلاش کرنے اور تھوڑی سی مچھلیوں کو بیچنے کے لیے بیتاب ہیں۔ ’’یہ لاک ڈاؤن ہمیں روز ڈبو رہا ہے؛ ہم روزانہ بس یہی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ڈوبنے سے بچ جائیں،‘‘ انہوں نے کہا۔

’ہم ہر کھانے کے ساتھ مچھلی کھاتے ہیں‘

مچھلی پکڑنے سے متعلق سرگرمیوں میں شیبو جیسی عورتیں بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ کیرالہ سمندری مچھلی کی مردم شماری ۲۰۱۰ کے مطابق، مچھلیوں کو صاف کرنے میں عورتوں کی حصہ داری ۹۶ فیصد، اس کے تحفظ اور پروسیسنگ میں ۸۴ فیصد اور مارکیٹنگ میں ۷۹ فیصد ہے۔ مچھلیوں تک پہنچنے میں ناکام رہنے کے سبب، شیبو جیسی مزدور خواتین اور فروشندوں کا بھاری نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے مچھلی کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلنے کی فرضی خبریں ان کی پریشانیاں بڑھا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم ہر کھانے کے ساتھ مچھلی کھا رہے ہیں، پھر بھی آس پاس کے لوگوں کو کچھ نہیں ہوا ہے۔ لیکن لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ چین کے بازار سے آیا ہے، اس لیے یہاں کے بازار سے بھی آ سکتا ہے۔‘‘

یہ چالا [سارڈن] ماہی گیروں کے ذریعے ونجیوں سے پکڑے گئے تھے اور کبھی اتنے مہنگے نہیں ہوتے تھے، جتنے اب ہیں۔ ابھی صرف ونجی ہی پانی میں جا سکتی ہے، بڑی کشتیاں نہیں جا سکتیں۔ ونجیوں کو زیادہ مچھلی نہیں ملتی، لیکن یہ تازہ ہے

ویڈیو دیکھیں: ’ہمیں اپنی روزی روٹی بھی کمانی ہوتی ہے‘

سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف فشریز ٹیکنالوجی کی ڈاکٹر گوپال نے کہا کہ حالات مزید خراب ہونے والے ہیں کیوں کہ ۹ جون سے مچھلی پکڑنے پر پابندی لگ جائے گی، جو اگلے ۵۲ دنوں تک جاری رہے گی۔ ’’مچھلی اور سمندری غذا کا ایک بڑا حصہ مچھلی پکڑنے والی بندرگاہوں سے آتا ہے، جیسے کہ وپن، فورٹ کوچی اور مونمبم۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر اب بند ہیں۔‘‘

لائیجو کے تین بیٹے ہیں اور ان میں سے صرف سب سے چھوٹا مچھلی پکڑنے میں دلچسپی رکھتا ہے، لیکن جلد ہی وہ اپنے سب سے بڑے بھائی کی طرح فائرمین بننے کی ٹریننگ لے گا؛ دوسرا بیٹا کوچی کے ایک دفتر میں کام کرتا ہے۔

’’ہماری زندگی ہمارے گاؤں کے ارد گرد ہی گھومتی ہے، اور میں صرف اسی زندگی سے واقف ہوں،‘‘ لائیجو نے کہا۔ ’’جب سیلاب آتا تھا، تو ہمیں پتا ہوتا تھا کہ اپنا کام کیسے چلانا ہے۔ لیکن کورونا کا یہ دور ہمارے لیے اجنبی جیسا ہے۔ آپ جانتی ہی ہیں کہ ملیالی کا کام مچھلی کے بغیر نہیں چل سکتا، اس لیے میں اب بھی پر امید ہوں،‘‘ انہوں نے کہا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

محمد قمر تبریز ۲۰۱۵ سے ’پاری‘ کے اردو/ہندی ترجمہ نگار ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی، دو کتابوں کے مصنف، اور ’روزنامہ میرا وطن‘، ’راشٹریہ سہارا‘، ’چوتھی دنیا‘ اور ’اودھ نامہ‘ جیسے اخباروں سے جڑے رہے ہیں۔ ان کے پاس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں گریجویشن اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے۔

Editor's note

ویدیکا پلّئی لیڈی شری رام کالج فار ویمن، دہلی یونیورسٹی سے سماجیات میں بیچلر کی پڑھائی کر رہی ہیں۔ انہوں نے مجوزہ نصاب – ایتھنوگرافک فلم سازی تکنیک – کے حصہ کے طور پر ماہی گیر برادری پر ایک فلم بنائی، جو اس مضمون کے پاری ایجوکیشن پر آنے کا سبب بنی۔ ویدیکا کہتی ہیں، ’’ماہی گیر برادری سرمایہ کے آنے جانے، پالیسیوں اور سماجی پیمانوں میں تبدیلی سے متاثر ہوئی ہے۔ یہ اس بڑے سماجی ڈھانچہ کا انکشاف کرتا ہے، جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں۔ پاری کے لیے اس اسٹوری کو کور کرنے سے میرے اندر سماجیات کا تصور مزید گہرا ہوا ہے۔ اس نے مجھے اپنی روزمرہ کی زندگی پر دوبارہ غوروفکر کرنے اور زندہ تجربات کو ایک بڑے سماجی تانے بانے میں فٹ کرنے کا موقع دیا ہے۔‘‘