کشمیر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ رکا نہیں تھا۔ البتہ ۵ اگست، ۲۰۱۹ کو دفعہ ۳۷۰ کو ہٹائے جانے کے بعد سے ایسا پہلی بار ہوا جب بچوں کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا۔ اسکول بند کر دیے گئے؛ فساد کو روکنے کے لیے ہمارے اوپر مواصلات کی پابندی عائد کر دی گئی۔ انٹرنیٹ بلاک کر دیا گیا، جس کی وجہ سے طلباء اپنے تعلیمی مواد ڈاؤن لوڈ نہیں کر سکتے تھے۔ آن لائن تعلیم تو کوئی متبادل ہی نہیں تھا۔

۴۹ سالہ تنویر، گزشتہ ۱۷ سالوں سے سرکاری اسکول میں ٹیچر ہیں۔ انہوں نے بانڈی پورہ کے سنبل بلاک کے چار اسکولوں میں پڑھایا ہے۔ تصویر: مہناز تنویر

میرا نام تنویر احمد بھٹ ہے۔ میری عمر ۴۹ سال ہے اور میں گزشتہ ۱۷ سالوں سے سرکاری اسکول کا ایک ٹیچر ہوں؛ میں صرف یہی کام جانتا ہوں۔ میں نے بانڈی پورہ کے سنبل بلاک میں چار اسکولوں میں پڑھایا ہے – ایک پرائمری اسکول، ایک مڈل اسکول اور دو ہائی اسکول میں۔

میں پہلی نسل کے طلباء کو ریاضی پڑھاتا ہوں – جن میں کسانوں، زرعی مزدوروں اور یومیہ مزدوروں کے بچے شامل ہیں۔ میرے کچھ طلباء کے پاس پنسل یا کاپی کتاب خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔

کشمیر میں پڑھانا ایک چیلنج ہے اور گزشتہ کچھ سالوں سے تو یہ اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ مسلسل کرفیو لگنے، تعلیمی اداروں اور کام کے دیگر مقامات کے بند ہونے کی وجہ سے ہمیں کافی نقصان ہوتا ہے۔ مجھے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجھے ٹیچر نہیں بننا چاہیے تھا کیوں کہ کشمیر میں بطور ٹیچر ہم اپنا رول ادا نہیں کر سکتے۔

میں تفریحی سرگرمیوں کے ذریعے پڑھانا پسند کرتا ہوں؛ میں اپنے طلباء کے ساتھ کرکٹ اور فٹ بال کھیلتا ہوں، انہیں تاش کھیلنے کا ہنر سکھاتا ہوں، اور پہاڑہ یاد کرنے کے لیے انہیں قلم جیسے چھوٹے تحفے دیتا ہوں۔ جب مجھے امکان کا نظریہ پڑھانا تھا، تو میں کلاس میں کچھ پتھر، رنگین گیند، کینڈی اور تاش لے کر آیا۔ میں نے رنگین گیند تھیلے میں رکھ لی اور طلباء سے کہا کہ وہ ایک کو باہر نکالیں اور کچھ گیند کے دوبارہ ظاہر ہونے کے امکان کو دیکھیں۔

کشمیر میں جب دفعہ ۳۷۰ کو منسوخ کر دیا گیا اور اسکولوں نے اپنے دروازے بند کر دیے، تو کچھ کالجوں اور میں نے دوبارہ پڑھانا شروع کرنے کا فیصلہ کیا، لہٰذا ہم نے سنبل بلاک کے اپنے گاؤں، تیرگام میں انفارمل کمیونٹی کلاس لینا شروع کیا؛ یہاں کی آبادی ۴۴۸۵ ہے جس میں سے آدھے لوگ خواندہ ہیں۔ ہم نے ایک مقامی کھیل کے میدان کا انتخاب کیا جہاں جانوروں کو چرانے کے لیے لایا جاتا ہے۔

تنویر کے ایک ساتھی، جاوید احمد (بائیں) بھی گورنمنٹ ہائی اسکول تیرگام کے قریب واقع مقامی کھیل کے میدان میں چل رہے کمیونٹی کلاس میں ریاضی پڑھاتے ہیں۔ تصویر: فوزیہ فیاض

ہم نے تمام اساتذہ کو اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی اور طلباء اپنی آسانی کے حساب سے وہاں آ سکتے تھے۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر باقاعدگی سے نہیں آتے تھے یا صرف اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے آتے تھےٍ! کچھ اپنے گھریلو کاموں میں مصروف تھے، اور آخرکار ان کمیونٹی کلاسوں میں ۶۰ طلباء میں سے صرف ۱۰-۲۰ ہی شریک ہوئے۔ مسلسل کرفیو نے ہماری مشکلیں اور بڑھا دیں اور ہمارے لیے ان کلاسوں کو جاری رکھنا مشکل ہو گیا، لیکن ہم نے نومبر ۲۰۱۹ کی موسم سرما کی چھٹی تک اپنے طلباء کو پڑھانا جاری رکھا۔

حکومت نے چھٹیوں کے بعد – ۲۴ فروری، ۲۰۲۰ کو اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دے دی۔ میں اپنے طلباء سے ملنے کے لیے بے چین تھا! مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب ۹ویں کلاس کی طالبہ، ضیاء رؤف نے مجھ سے انتہائی خوشی کے ساتھ آکر کہا کہ اسے ایسا لگ رہا ہے گویا آج اسکول کا اس کا پہلا دن ہو۔ اسکول کھلنے سے تین دن پہلے، اس نے اپنے جوتے پالش کیے اور اپنی یونیفارم کو آئرن کیا۔ اس دن، جب ہم لوگ تیرگام کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخل ہوئے، تو ہم سبھی لوگ کافی جذباتی ہو گئے تھے۔ لیکن ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا کہ کووڈ۔۱۹ وبائی مرض شروع ہو جانے کی وجہ سے اسکول کو مارچ ۲۰۲۰ میں دوبارہ بند کر دیا گیا۔

بائیں: ۱۳ سالہ ضیاء رؤف، گورنمنٹ ہائی اسکول تیرگام کے باہر۔ اسکول تک پیدل آنے میں اسے دس منٹ لگتے ہیں اور وہ لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں کی وجہ سے عارضی طور پر اس کے بند ہونے سے پہلے، اپنی بہترین دوست کے ساتھ اسی راستے (دائیں) سے چل کر اسکول آتی تھی۔ تصویر: فوزیہ فیاض

یہ بات بالکل واضح تھی کہ اب اسکول میں کوئی کلاس نہیں ہوگی، لہٰذا اپریل ۲۰۲۰ میں اپنے طلباء کے لیے میں نے آن لائن کلاس شروع کر دی۔ ٹو جی اسپیڈ کے ساتھ آن لائن کلاس لینے میں بہت دقت پیش آتی تھی۔ طلباء اسکرین کو ٹھیک سے دیکھ نہیں پاتے تھے، وہ ہماری آواز کو صاف سن نہیں پاتے تھے اور ویڈیو بھی بہت زیادہ بفر ہونے لگتا تھا۔

اس کی وجہ سے میرے طلباء کی دلچسپی ختم ہونے لگی – وبائی مرض سے قبل ہماری ایک کلاس میں تقریباً ۶۰ طلباء ہوتے تھے، لیکن ان میں سے صرف نو یا ۱۰ ہی کے پاس فون تھا اور آن لائن کلاس میں شریک ہو پاتے تھے۔ [سال ۲۰۱۸ کے نیشنل سیمپل سروے کے ۷۵یں راؤنڈ کے مطابق، کشمیر میں صرف ساڑھے تین فیصد دیہی گھروں میں کمپیوٹر اور ۲۸ اعشاریہ ۷ فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے حقوق انسانی کی سال ۲۰۱۹ کی رپورٹ کے مطابق، یہ ریاست ملک میں انٹرنیٹ بند ہونے سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔]

’[ضیاء جیسے طالب علم] اسکرین کو ٹھیک سے نہیں دیکھ سکتے تھے، وہ ہماری آواز صاف نہیں سن سکتے تھے اور ہم انہیں جو ویڈیو بھیجتے تھے وہ بہت زیادہ بفر ہوتی تھی۔‘ تصویر: فوزیہ فیاض

نومبر ۲۰۲۰ میں جب کووڈ۔۱۹ کے معاملے گھنٹے لگے، تو ہم نے کمیونٹی کلاس دوبارہ شروع کر دی۔ بانڈی پورہ کے چیف ایجوکیشن آفیسر (سی ای او) کے دفتر کو طلباء کی حاضری کے لیے یہ بہتر لگا اور اس نے ہمیں اسے جاری رکھنے کے لیے کہا۔ چونکہ میں سرکاری اسکول کے قریب ہی پڑھاتا تھا، اس لیے میں اسکول سے کھیل کے اس میدان تک سفید بورڈ لے جایا کرتا تھا – جو کہ صرف دس منٹ کی پیدل دوری پر ہے۔ ہمیں اپنی کلاس کا ثبوت تصویر کی شکل میں دکھانا پڑتا تھا اور ہمیں ہر کلاس کے بعد یہ تصویریں سی ای او کے دفتر میں بھیجنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ان تصویروں کے ذریعے، وہ ان اساتذہ کی حاضری کا ریکارڈ رکھتے تھے، جو کلاس میں شامل ہو رہے تھے۔

جب امتحان کا وقت آیا، تو ہمیں آن لائن امتحان لینا پڑا۔ میرے چھ ساتھی اور میں نے طلباء سے درخواست کی کہ جن کے پاس فون نہیں ہے وہ اسکول آ جائیں، اور ہم نے امتحان کے لیے انہیں اپنے فون دیے۔

ہر لہر کے ساتھ چونکہ معاملے بڑھ رہے ہیں اس لیے کمیونٹی کلاس فی الحال روک دی گئی ہے۔

سرکاری اسکول کا ٹیچر ہونے کے ناطے ہمیں اسکول سے باہر بھی ڈیوٹی دینی ہوتی ہے: ہنگامہ کے دوران یہ ٹیچر چوکیدار بن جاتے ہیں؛ سروے کے دوران انہیں پٹواری (سرکاری اہلکار) بنا دیا جاتا ہے؛ الیکشن کے دوران وہ ایک پولیس مین ہوتا ہے اور اب کووڈ۔۱۹ کے دوران ٹیچر میڈیکل افسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان تمام کاموں کے لیے انہیں الگ سے کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ ہم جو کام کرنا چاہتے ہیں وہ کر نہیں سکتے، جیسے کہ اپنے بچوں کو تعلیمی سفر کے طور پر مختلف مقامات پر لے جانا؛ ہم اسکول کی چہار دیواری تک ہی محدود ہیں۔

اس پوری مدت کے دوران میں اپنی فیملی سے دور رہا – اپنی بیوی ۴۵ سالہ مہناز تنویر، اور دو بیٹوں ۱۲ سالہ عمر اور ۸ سالہ طلحہ سے دور۔ میں زیادہ تر وقت اپنے طلباء کی کونسلنگ کرتا ہوں جو اسکولوں کے بند ہونے اور آس پاس ہونے والی عام لڑائی سے پریشان اور ذہنی تناؤ میں ہیں۔ کئی بار میری کونسلنگ کام آتی ہے، لیکن ہمیشہ نہیں۔

کبھی کبھی اگر کوئی بچہ فیس نہیں دے پاتا ہے، تو میں اپنی جیب سے اس کی فیس بھرتا ہوں اور کاپی کتاب، پنسل وغیرہ سے بھی اس کی مدد کرتا ہوں۔ وبائی مرض کے دوران ہماری تنخواہ تاخیر سے آتی تھی، اس لیے مجھے اپنی بچت سے اپنے گھر کا خرچ چلانا پڑا۔

’آن لائن کلاس لیتے وقت، مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں کسی فلمی دنیا میں ہوں، کیمرے کے سامنے اداکاری کر رہا ہوں، اکیلے ایک کمرے میں۔‘ تصویر: فوزیہ فیاض

جب میں بڑا ہو رہا تھا، تو میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ مشترکہ فیملی میں رہتا تھا۔ میں ان چاروں میں سب سے چھوٹا ہوں۔ میرے والدین کا انتقال ہو چکا ہے۔ وہ دونوں کافی تعلیم یافتہ تھے – میری والدہ یہیں تیرگام گاؤں کے مڈل اسکول میں ایک سرکاری ٹیچر تھیں اور میرے والد بانڈی پورہ کے سنبل ٹاؤن میں پولیس انسپکٹر تھے۔ ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، سنبل کی شرح خواندگی تقریباً ۳۵ فیصد ہے؛ میں خوش قسمت ہوں کہ میری پرورش ایک ایسی فیملی میں ہوئی جہاں پر تعلیم کو ترجیح دی جاتی تھی۔ میں جب چھوٹا تھا، تو میری ماں مجھے اپنے ساتھ اسکول لے جاتی تھیں۔ میں اپنی ماں کو دیکھتا تھا اور ان ہی کی طرح بننا چاہتا تھا۔

فروری ۲۰۲۱ میں، کشمیر میں ریگولر انٹرنیٹ اسپیڈ کی اجازت دے دی گئی، لیکن اب آن لائن کلاس میں طلباء کی دلچسپی کافی کم ہو گئی ہے یا بالکل بھی نہیں ہے۔ جو بچے آن لائن کلاس میں شریک ہوتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ تھک جاتے ہیں، انہیں تناؤ ہونے لگتا ہے، اور ان کلاسوں کے دوران دیر تک اسکرین دیکھنے کی وجہ سے ان کی پیٹھ اور گردن میں درد ہونے لگتا ہے۔ کھیل کود کی کوئی سرگرمی نہیں ہے اور وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل نہیں سکتے کیوں کہ یہاں پر مسلسل کرفیو یا لاک ڈاؤن لگا رہتا ہے۔ وہ قیدیوں کی طرح ہو گئے ہیں، گویا کہ جیل میں بند ہوں۔

صرف طلباء ہی نہیں، بلکہ ٹیچروں میں بھی ذہنی صحت سے متعلق مسائل پیدا ہونے لگے ہیں – ہم پڑھاتے تو ہیں، لیکن اپنے طلباء کو دیکھ نہیں سکتے یا ان سے مل نہیں سکتے۔ آن لائن کلاس لیتے وقت، مجھے لگتا ہے کہ میں کسی فلمی دنیا میں ہوں، کیمرے کے سامنے اداکاری کر رہا ہوں، کمرے میں اکیلا۔

Editor's note

فوزیہ فیاض نے حال ہی میں کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول، سنبل سے ۱۲ویں کلاس پاس کیا ہے۔ وہ پاری ایجوکیشن کے لیے رپورٹنگ کرنے کو بے قرار تھیں اور اس مضمون کے لیے انہوں نے کئی مہینے تک کام کیا – انٹرنیٹ بار بار خراب رہنے کی وجہ سے ان کے لیے تصویریں بھیجنا اور معلومات جمع کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس اسٹوری کے لیے رپورٹنگ نے مجھے بتایا کہ صحافت کیا چیز ہوتی ہے – ہر بیان کے ساتھ ثبوت ہونا ضروری ہے۔ اس اسٹوری کے ذریعے، میں کشمیر جیسے تنازع کے شکار علاقوں کے ٹیچروں اور طلباء کی آوازیں لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہوں۔ یہ جان کر کافی تکلیف ہوئی کہ وادی میں لگاتار بند کی وجہ سے مجھے جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، ویسی ہی پریشانیاں دیگر طلباء کو بھی ہوئیں۔‘‘  

مترجم: محمد قمر تبری
محمد قمر تبریز، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ہندی/اردو کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی، دو کتابوں کے مصنف ہیں، اور ’روزنامہ میرا وطن‘، ’راشٹریہ سہارا‘، ’چوتھی دنیا‘ اور ’اودھ نامہ‘ جیسے اخبارات سے منسلک رہے ہیں۔ ان کے پاس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے۔