’’شام کو ۳۰:۵ بجے سے ۰۰:۶ بجے تک ہمارے گاؤں کانکوڑہ میں ماحول پرامن تھا۔ ہوا اور بارش رک گئی تھی۔ مجھے لگا کہ شاید طوفان ختم ہو گیا ہے، لیکن پھر ہوا چلنے لگی اور ایسا لگا کہ اس نے سمت بدلنا اور رفتار پکڑنی شروع کر دی ہے،‘‘ ۴۱ سالہ سجل کیال کہتے ہیں، ’’ہوا بہت خوفناک لگ رہی تھی – جیسے کوئی تیز آواز میں چیخ رہا ہو۔ تمام کھڑکیاں اور دروازے ہلنے اور تھرتھرانے لگے جیسے کوئی ہمارے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہو۔ یہ نوگھنٹے تک چلتا رہا، رات بھر؛ ہم لوگ بہت ڈرے ہوئے تھے۔

’’میرے بھائی کاجِل اور میں نے اپنی چھت کو اڑنے سے روکنے کی کوشش کی، میری بیوی، ماں اور بھابھی کھڑکیوں کو بچانے کی کوشش کر رہی تھیں، میرے ۷۵ سالہ والد دروازے کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم نے بچوں [پانچ سال کا لڑکا اور تین سال کی لڑکی] سے کہا کہ وہ اندر چھپ جائیں۔ اگر ہم گھر سے باہر نکلتے، تو ہمیں معلوم تھا کہ ہم طوفان میں مارے جائیں گے۔‘‘

سجل اور ان کی فیملی کی تمام کوششوں کے باوجود، ان کے گھر کی چھت اڑ گئی، کھڑکیاں ٹوٹ گئیں اور گھر میں پانی بھر گیا، درختوں کی شاخیں اور کیڑے اندر گھس آئے۔ ’انتہائی خطرناک سمندری طوفان‘ کے طور پر درج بند امفن، ۱۴۰-۱۵۰ کلومیٹر کی رفتار اور ۱۶۵ کلومیٹر تک ہوا کے جھونکے کے ساتھ ۲۰ مئی، ۲۰۲۰ کو مغربی بنگال کے ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تھا۔ دیہی علاقوں، خاص طور سے سندر بن جیسے علاقوں میں امفن کے سبب ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ اس سے جنوبی اور شمالی ۲۴ پرگنہ میں کافی تباہی ہوئی۔ ۲۹ مئی، ۲۰۲۰ تک ریاست بھر میں مرنے والوں کی تعداد ۹۸ تھی۔

طوفان کا مرکز

کانکوڑہ مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع میں واقع ہے، جو امفن طوفان کا مرکز تھا، جہاں بعد میں تیز ہوائیں چلنے کے ساتھ ہی موسلادھار بارش بھی ہونے لگی تھی۔ ’’ہم نے پہلے بھی سمندری طوفان کا سامنا کیا ہے، لیکن ایسے طوفان کا نہیں۔ سال ۲۰۰۹ میں، آئیلا طوفان کے سبب کچھ درخت اکھڑ گئے تھے، لیکن وہ تین گھنٹے میں ہی ختم ہو گیا تھا۔ جنوبی ۲۴ پرگنہ کبھی سمندری طوفان کا مرکز نہیں رہا۔ ہم عام طور پر یہی امید کرتے ہیں کہ سمندری طوفان مدناپور ضلع سے گزرے گا اور سندربن ہوتا ہوا بنگلہ دیش کی طرف چلا جائے گا،‘‘ سجل کہتے ہیں۔

سجل کانکوڑہ گاؤں میں ہی پیدا ہوئے تھے اور تب سے انہوں نے اپنی پوری زندگی یہیں گزاری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ۷۵ سالہ والد سدرشن کیال کو بھی امفن جیسی کوئی بات یاد نہیں ہے، جس نے ۲۰ مئی ۲۰۲۰ کو مغربی بنگال میں تبائی مچائی تھی اور (ریاست کا) اندازہ ہے کہ اس سے ۱ لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔

۳۵۷ مکانوں اور ۱۴۵۶ لوگوں کی آبادی والے گاؤں، کانکوڑہ میں ہر گھر یہاں آئے سمندری طوفان کی تباہی کی گواہی دے رہا ہے۔ کانکوڑہ کے زیادہ تر رہائشیوں کے پاس – جن میں سے ۴۹۱ دلت کے طور پر درج فہرست ہیں – ایک ایکڑ سے بھی کم زمین ہے اور وہ چھوٹی سطح پر کھیتی کرتے ہیں۔ سمندری طوفان نے ان کی تمام فصلوں کو برباد کر دیا ہے۔ ناریل، آم اور تاڑ کے درخت، جن سے گاؤں والوں کو اضافی آمدنی حاصل ہوتی ہے، وہ بھی جڑ سے اکھڑ گئے ہیں، جو کہ ان کے مجموعی نقصان میں اضافہ کا سبب ہے۔

اس گاؤں کے زیادہ تر لوگ قریب میں واقع فالٹا بلاک کی قلم، پلاسٹک اور کپڑا فیکٹریوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ دو مہینے پہلے لاک ڈاؤن لگنے کے بعد یہ کارخانے بند کر دیے گئے، جس کی وجہ سے مزدوروں کو کانکوڑہ میں اپنے گھر واپس آنا پڑا، اور وہ پوری طرح سے اپنی کھیتی سے ہونے والی آمدنی پر منحصر تھے۔

’’میری مونگ کی فصل برباد ہو گئی۔ اس کے پودے دو فٹ لمبے ہو چکے تھے اور فصل کٹائی کے لیے تیار تھی۔ اب وہ پانی میں ڈوبی ہوئی ہے،‘‘ ۴۹ سالہ کوکن رائے کہتے ہیں۔ چھ بیگھہ (۲ اعشاریہ ۴ ایکڑ) میں لگی ان کی پوری فصل اور سبھی کھیت پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ گاؤں کے دیگر لوگوں کی طرح وہ بھی سال بھر پھول گوبھی، پتا گوبھی اور دھان اُگاتے تھے، اورانہیں فروخت کرکے تقریباً ۹ ہزار روپے ماہانہ کماتے تھے۔ ’’میرے آم کے درخت اکھڑ گئے ہیں، اور میرے گھر کی چھت اجڑ گئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیسے گزارہ کروں گا۔‘‘

۴۷ سالہ لکشمی سانترا کو اپنے پڑوسی کے گھر میں پناہ لینی پڑی۔ ’’میرا گھر پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور میں کسی اور کے گھر میں رہ رہی ہوں۔ میری فصل برباد ہو گئی ہے۔‘‘ وہ اپنی دو بیگھہ (۰ اعشاریہ ۸ ایکڑ) زمین پر دھان اور مونگ کی کھیتی کرتی ہیں، جس سے انہیں ہر سال تقریباً ۲۵ ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ لکشمی گاؤں کی ایک کپڑا فیکٹری میں کام کرتی ہیں، جہاں وہ لاک ڈاؤن سے پہلے تقریباً ۷ ہزار روپے ماہانہ کماتی تھیں، لیکن اب تمام فیکٹریاں بند ہیں۔ ’’میں نہیں معلوم کہ مستقبل میں میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔‘‘

مقامی لوگوں کا اندازہ ہے کہ کچا گھر بنانے کی لاگت ایک لاکھ روپے ہوگی؛ پکّا گھر بنانے میں ۴ لاکھ روپے تک خرچ کرنے پڑ سکتے ہیں

پھوس کی چھت والے کچّے مکانوں کے ساتھ ساتھ سیمنٹ سے بنے گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس رپورٹر نے جب یکم جون ۲۰۲۰ کو یہاں کے رہائشیوں سے بات کی تھی، تو اس وقت بجلی کے تار گرے ہوئے تھے اور گاؤں میں بجلی نہیں تھی۔ مقامی لوگوں کا اندازہ ہے کہ کچّا گھر بنانے کی لاگت ایک لاکھ روپے ہوگی اور پکّا گھر بنانے میں ۴ لاکھ روپے تک خرچ کرنے پڑ سکتے ہیں۔

’’میرا گھر پوری طرح سے ٹوٹ گیا تھا – چھت اُڑ گئی اور زیادہ تر دیواریں ٹوٹ گئیں،‘‘ کانکوڑہ گاؤں کے تیئس اسکول میں پرائمری اسکول کی ایک ٹچیر، ۲۹ سالہ موؤمیتا پرمانک کہتی ہیں۔ ان کے شوہر، ۳۱ سالہ بلاس پرمانک کی جب نوکری چلی گئی، تو موؤمیتا کی ۲۰۰۰ روپے کی ماہانہ آمدنی سے ہی ان کی فیملی کا خرچ چل رہا تھا۔ ’’میرے شوہر تین کلومیٹر دور قلم کی ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے، لیکن لاک ڈاؤن کے سبب فیکٹری بند ہے اور ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ ہم لوگ ان کی ۵۵۰۰ روپے کی ماہانہ آمدنی کے بغیر، بڑی مشکل سے اپنا کام چلا رہے تھے۔ لیکن ہم نے اب اپنا گھر بھی کھو دیا ہے۔‘‘

موؤمیتا کے کام کرنے کی جگہ – پرائمری اسکول – بھی ٹوٹ گیا ہے اور درمیان کی ایک دیوار گر گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اسکول کووڈ- ۱۹ راحت کے طور پر راشن کی تقسیم کا مرکز بن گیا تھا۔ خوش قسمتی سے ہم نے راشن کو اندر رکھ دیا تھا، اس لیے کچھ بھی برباد نہیں ہوا۔‘‘ ٹیچر سبق کا پلان بنانے اور انہیں طلبہ کے وہاٹس ایپ پر بھیجنے کے لیے اسکول آتے تھے۔ لیکن، سمندری طوفان کے سبب اب وہ بھی رک گیا ہے۔

آمدنی کے بغیر جدوجہد کرنے والوں میں صرف کارخانے کے ملازم ہی نہیں ہیں۔ ’’میں ایک سائیکل رکشہ چلاتا ہوں اور کبھی کبھی میں دہاڑی مزدوری بھی کرتا ہوں، لیکن اب میرے پاس نہ تو کوئی کام ہے اور نہ ہی کوئی آمدنی،‘‘ ۴۹ سالہ گنیش مونڈل کہتے ہیں، جو ۶ ہزار روپے کی ماہانہ آمدنی سے اپنی بیوی اور پانچ سال کے بیٹے کا خرچ چلا رہے تھے۔ اب امفن نے ان کا گھر چھین لیا ہے، ’’میرے پاس مرمت کے لیے پیسے کا انتظام کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

سمندری طوفان کے بعد، سرکار نے ان لوگوں کو کالی پلاسٹک کی چادریں تقسیم کی تھیں، جن کے گھروں میں کوئی دیوار یا چھت نہیں بچی ہے۔ ’’میں نے اپنے گھر کے چاروں طرف پلاسٹک کی چادریں لگا دی ہیں تاکہ ہمارے پاس کم از کم کوئی ٹھکانہ ہو۔ میری چھت کسی طرح سے بچ گئی، لیکن میرے گھر کی دیواریں پوری طرح سے ٹوٹ چکی ہیں،‘‘ ایک کپڑا فیکٹری میں کام کرنے والے، ۳۴ سالہ جسیم الدین میر نے کہا۔

انگور بالا کیال، جن کے پاس صرف ایک بیگھہ (۰ اعشاریہ ۴ ایکڑ) زمین ہے اور وہ بھی پانی میں ڈوبی ہوئی ہے، پوری طرح سے بربادی اور غریبی کو دیکھ رہی ہیں۔ ’’میں بالکل اکیلی ہوں، میرے شوہر کا ۱۲ سال پہلے انتقال ہو گیا تھا، اور میرے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ میرا گھر اجڑ گیا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ مونگ اور دھان کی ان کی پوری فصل برباد ہو چکی ہے۔ وہ امید کر رہی ہیں کہ ان کے پاس جو ایک گائے ہے، اس سے اگلے کچھ مہینوں تک ان کا کام چل جائے گا۔

سمندری طوفان سے پہلے لوگوں کو محفوظ مقامات پر لے جایا گیا تھا، لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ۱۵ لوگوں کو اپنے گھروں کو بچانے کی کوشش کے دوران معمولی چوٹیں آئی ہیں۔ ابھی ڈائمنڈ ہاربر کے ضلع اسپتال میں ان کا علاج چل رہا ہے، جو کہ کانکوڑہ سے تقریباً ۱۳ کلومیٹر دور ہے۔

مرکزی حکومت نے، ۲۳ مئی کو تباہی کا ہوائی سروے کرنے کے بعد، ریاست کو ۱۰۰۰ کروڑ روپے کا راحت پیکیج دینے کا اعلان کیا تھا۔ سجل کہتے ہیں، ’’ہم اپنے گاؤں کی دوبارہ تعمیر کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ مرکزی حکومت مغربی بنگال کے لوگوں کو فنڈ فراہم کر رہی ہے۔ ہم اپنے پاس پیسہ پہنچنے کا انتظار کرر ہے ہیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

محمد قمر تبریز ۲۰۱۵ سے ’پاری‘ کے اردو/ہندی ترجمہ نگار ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی، دو کتابوں کے مصنف، اور ’روزنامہ میرا وطن‘، ’راشٹریہ سہارا‘، ’چوتھی دنیا‘ اور ’اودھ نامہ‘ جیسے اخباروں سے جڑے رہے ہیں۔ ان کے پاس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں گریجویشن اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے۔

Editor's note

نکیتا چٹرجی بنگلورو کی عظیم پریم جی یونیورسٹی میں ڈیولپمنٹ اسٹڈیز میں ماسٹرز کی طالبہ ہیں، جہاں انہوں نے دیہی ہندوستان میں زندگی اور ذریعہ معاش کے موضوع پر پاری کے ایک اجلاس میں شرکت کی تھی۔ لاک ڈاؤن کے دوران کولکاتا میں اپنے گھر پر، وہ امفن طوفان کی غضب ناک حالت اور کانکوڑہ میں اس کے ذریعے کی گئی تباہی کی پہلی گواہ تھیں۔ سمندری طوفان کے بارے میں لکھنے سے انہیں قدرتی آفت کے نتیجہ کو دیکھنے اور یہ سمجھنے کا موقع حاصل ہوا ہے کہ کیسے معاشرہ، زندگی اور ذریعہ معاش پوری طرح سے برباد ہونے کے بعد بھی اپنی گاڑی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔