
یہ اسٹوری شروع میں ہندی میں لکھی گئی تھی۔ پاری ایجوکیشن، ہندوستان کے مختلف علاقوں کے ایسے تمام نوجوانوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، جو اپنی پسندیدہ زبان میں مضمون نگاری اور رپورٹنگ کر رہے ہیں۔
نرملا دیوی اپنے گھر میں رکھی ٹوکریوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہتی ہیں، “پہلے تو ٹوکریاں بناکر اور فروخت کرکے گھر کا خرچ چل جاتا تھا۔”گھر کے دو کمروں میں بانس کی لمبی چھوٹی پٹیاں اور آدھی ادھوری بنی ٹوکریاں بکھری پڑی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “جب سے کورونا آیا ہے، لوگوں نے ٹوکریاں خریدنی بند کر دی ہیں، اس لیے ہم نے اب بنانا ہی چھوڑ دیا ہے۔”
آخری بار انہوں نے فروری ۲۰۲۱ کے لگن (شادیوں) کے وقت ٹوکریاں فروخت کی تھیں۔ سال ۲۰۲۰ میں تقریباً صفر کے برابر فروخت ہوئی تھی۔ نرملا کے شوہر گُل ونش کہتے ہیں، “کورونا سے پہلے ہم اپنے گاؤں میں گھر گھر جا کر ٹوکریاں فروخت کر لیتے تھے۔ جن لوگوں نے اپنی طرف سے ٹوکری کا آرڈر دیا ہوتا تھا، وہ آتے تھے اور خود لے جاتے تھے۔”


۵۰ سالہ نرملا اور ان کے ۵۸ سالہ شوہر گُل ونش سنگھ، پالم پور سب ڈسٹرکٹ کے رچھیارا گاؤں میں رہتے ہیں۔ پالم پور تقریباً پوری طرح سے دیہی علاقہ کہا جا سکتا ہے – اس کی ۱۸۹۲۷۶ کی آبادی میں سے ۹۸ فیصد لوگ چھوٹی بستیوں اور ۱۵۶ گاؤوں میں رہتے ہیں۔ یہاں سے سب سے قریبی گاؤں درمّان ہے، جو کچھ ہی کلومیٹر دور واقع ہے اور (۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق) اس کی آبادی ۶۶۲ ہے۔
مٹی سے بنا اُن کا گھر صنوبر، سنترے اور ناشپاتی کے درختوں سے گھرا ہوا ہے، جو ہماچل پردیش کے کانگڑہ ضلع کی خاصیت مانی جاتی ہے۔ میاں بیوی کا تعلق ڈومنا برادری (ریاست میں درج فہرست ذات میں شامل) سے ہے، اور جہاں تک انہیں یاد ہے، وہ ہمیشہ سے بانس کی ٹوکریاں ہی بُنتے رہے ہیں۔
ہمالیہ کا دھولا دھار کوہستانی سلسلہ کانگڑہ ضلع کا بنیادی کوہستانی سلسلہ ہے، اور دھولا دھار جنگلاتی علاقہ ۹۵۷۶۹ ہیکٹیئر رقبہ میں پھیلا ہوا ہے۔ پالم پور علاقہ میں، جہاں ان کا گاؤں واقع ہے، چائے ایک بنیادی فصل ہے؛ اور چائے کی پتیاں توڑنے والے مزدور ان بانس کی ٹوکریوں کو اپنی پیٹھ پر باندھتے ہیں اور ان میں پتیاں بھرتے جاتے ہیں۔ ٹوکریوں کا استعمال چاول جیسے اناج کو رکھنے، کوڑے دان کے طور پر، اور یہاں تک کہ نوزائیدہ بچوں کے جھولے کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔
نرملا کہتی ہیں، “میرے ماں باپ بھی یہی کاریگری کرتے تھے اور انہی سے میں نے یہ کام سیکھا ہے۔” فیملی کی مالی حالت خراب ہونے کے سبب وہ تعلیم حاصل نہیں کر پائیں۔ ۱۶ سال کی عمر میں گُل ونش کے ساتھ شادی ہونے کے بعد بھی انہوں نے یہ کام جاری رکھا۔ ان کے ساس سسر بانس سے مختلف قسم کے سامان بناتے تھے، اور یہ جوڑی بھی ان کے ساتھ کام کرنے لگی۔ نرملا کہتی ہیں، ’’ہم سب مل کر کام کرتے تھے، تب جا کر ایک دن میں ۲-۱ ٹوکری بن کر تیار ہو پاتی تھی۔”

۳۲ سالہ رنجیت اپنے والد کے ساتھ گاؤں اور اس کے ارد گرد کے جنگلات سے بانس لینے جاتے ہیں۔ نرملا کا کہنا ہے، “انہیں تلاش کرنا آسان ہے،” کیوں کہ رچھیارا اور اس کے آس پاس یہ بڑی مقدار میں بڑھتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ ہماچل پردیش کا ۶۶ فیصد حصہ، جنگلاتی زمین کے تحت آتا ہے۔ آدمی اپنے کندھوں پر بانس لے کر چلتے ہیں اور گھر لوٹتے وقت ان لمبے بانسوں کا توازن بنائے رکھنا ہوتا ہے۔
کبھی کبھی وہ گاؤں کے بازار سے بھی بانس خریدتے ہیں؛ اور ایک بانس ۲۵۰ روپے میں مل جاتا ہے، جس سے تین چھوٹی ٹوکریاں بنانے یا ایک پورا جھولا یا کِردا بُننے کے لیے مناسب مقدار میں خام مواد نکل جاتا ہے۔ کئی بار ٹوکری بنانے کا آرڈر دینے والے لوگ خود ہی بانس دے جاتے ہیں۔


نرملا کہتی ہیں، “ایک جھولا اور ایک بڑی ٹوکری ۵۰۰ روپے میں فروخت ہوتی ہے اور ہم اُس پر ۱۵۰ روپے کا منافع کما سکتے ہیں۔” انہیں یاد آتا ہے کہ جب وہ بہت چھوٹی تھیں، تو ان کے والدین اس کے لیے دو تین روپے لیتے تھے۔
شادیوں کا سیزن – جنوری سے مئی تک – فروخت کے لیے سب سے مصروف وقت ہوا کرتا تھا۔ شادیوں میں شامل ہونے والے رشتہ دار انہی ٹوکریوں میں رکھ کر اپنے تحفے دیتے تھے۔ اس کے لیے، شادی سے مہینوں پہلے ہی آرڈر دے دیے جاتے تھے۔ حالانکہ، جیسے جیسے شادیوں اور بڑے اجتماع پر روک لگی، ویسے ویسے ٹوکریوں کی فروخت میں کمی ہوتی گئی۔
بانس کے گھر آ جانے کے بعد، نرملا اور گل ونش بانس کو خشک کرکے باریکی سے کاٹتے ہیں۔ اس کے بعد، گُل ونش تیز دھار دار چاقو سے بانس کا چھلکا ہٹاتے ہیں اور اس کے اندر کا ریشہ نکالتے ہیں۔ اُن کے مطابق، یہ کام انتہائی احتیاط سے کرنا ہوتا ہے، کیوں کہ اس میں خطرہ ہوتا ہے۔ گُل ونش کہتے ہیں، ’’کئی بار معمولی زخم آ ہی جاتا ہے۔ اور ہاتھ کٹ جانا تو ہمارے لیے عام بات ہے۔‘‘
منجو اور رانی، بانس کی پتیوں کو نکالتی ہیں اور ایک مقامی دکان سے خریدے گئے پینٹ سے گلابی، سبز اور نیلے رنگ میں پینٹ کرتی ہیں۔ ۱۰۰ روپے کے پینٹ سے وہ آٹھ ٹوکریوں کا بانس رنگ لیتی ہیں۔ نرملا کہتی ہیں، “پہلے، ہم ایک ہفتہ میں چار سے پانچ [ٹوکری] بنا لیتے تھے۔ اب، جیسے جیسے ہماری عمر زیادہ ہو رہی ہے، ہم صرف دو سے تین ہی بنا پاتے ہیں۔”





بانس کے گھر آ جانے کے بعد، نرملا اور گل ونش بانس کو خشک کرکے باریکی سے کاٹتے ہیں۔ گُل ونش کہتے ہیں، ’’کئی بار معمولی زخم آ ہی جاتا ہے۔ اور ہاتھ کٹ جانا تو ہمارے لیے عام بات ہے۔‘‘ تصویر: امرتا راجپوت
جون سے ستمبر تک، برسات کے موسم میں بانس کو تلاش کرنا، کاٹنا اور ان کے دو کمرے کے گھر میں لے آنا اور خشک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ گُل ونش کہتے ہیں، “بانس کو رکھنے کے لیے گھر میں زیادہ جگہ نہیں ہے، اس لیے اسے گھر کے باہر ہی رکھنا پڑتا ہے۔ اور گھر کے باہر بھی ہمارے پاس زیادہ جگہ موجود نہیں ہے۔”
اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے، فیملی برسات کا موسم شروع ہونے سے پہلے ہی بانس کاٹ کر لے آتی ہے۔
بازار میں پلاسٹک کے سامانوں کی آمد نے فروخت کو کافی کم کر دیا ہے، اور فیملی کے رکن دیگر کام بھی کرنے لگے ہیں۔ سال ۲۰۱۵ سے، نرملا نے چائے کے باغات میں کام کرنا شروع کر دیا ہے، جہاں وہ فصل کے سیزن (اپریل سے اگست تک) میں کام کرتی ہیں، اور ایک دن میں ۲۰۰ روپے تک کما لیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، “لیکن لاک ڈاؤن کے دوران چائے کے باغات میں بھی کام ملنا مشکل ہو گیا تھا، کیوں کہ ایک ساتھ زیادہ لوگوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے مجھے زیادہ کام نہیں مل پایا۔”
وہیں، گُل ونش تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرتی ہیں، جس سے ان کی ایک دن میں ۵۰۰ روپے تک کی کمائی ہو جاتی ہے۔ گُل ونش بتاتے ہیں، “یہ کام ملے ہوئے بھی کافی وقت ہو گیا ہے۔ آخری بار، لاک ڈاؤن سے پہلے کام ملا تھا۔ اس کے بعد سے کوئی گھر ہی نہیں بنوا رہا ہے، تو ہمیں کام کہاں سے ملے گا؟”
امرجیت اور منجو نے ایک دکان کرایے پر لی تھی اور سلائی کا کام کرنے لگے تھے۔ امرجیت کہتے ہیں، “درزی کے طور پر ہم ایک مہینہ میں چار سے پانچ ہزار روپے کماتے تھے۔ لیکن لاک ڈاؤن نے سلائی کے کام پر برا اثر ڈالا ہے اور ہماری کمائی میں کمی آئی ہے۔”


نرملا کے تینوں پوتے پوتیاں انگریزی میڈیم سے ایک مقامی پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو صرف ۵ویں اور ۸ویں کلاس تک ہی پڑھا سکیں۔ مگر وہ اپنے پوتے پوتیوں کو آگے پڑھانا چاہتی ہیں، تاکہ وہ بہتر زندگی کا ہدف لے کر چلیں، کیوں کہ ٹوکری کی بُنائی کرکے معاش حاصل کرتی آ رہی اس فیملی کا مستقبل اب غیر یقینی کی صورتحال سے گھرا ہوا ہے، اور وہ پس و پیش میں ہیں کہ اب ان کی اس کاریگری کا کیا ہوگا۔ وہ کہتی ہیں، ’’صرف ہمارے گاؤں کے لوگ ہی ہم سے سامان خریدتے ہیں اور پھر دو تین سال تک ہماری ٹوکریاں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اب لوگ پلاسٹک کے سامان خریدنے لگے ہیں، اس لیے اب آنے والا وقت کیسا ہوگا، اس بارے میں زیادہ امید نہیں بچی ہے۔‘‘
اس اسٹوری کی ایڈٹنگ کے لیے ہم پاری کے ہندی ایڈیٹر دیویش کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
ہم اسٹوری میں مدد کے لیے، پاری کی سابق انٹرن سودیشا شرما کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔
Editor's note
ریتو یادو، اتر پردیش کے سلطانپور ضلع کے شری وشوناتھ پی جی کالج میں گریجویشن کے آخری سال کی طالبہ ہیں اور بزنس مینجمنٹ کی پڑھائی کر رہی ہیں۔ انہوں نے نوجوان لڑکیوں کو با اختیار بنانے کی سمت میں کام کرنے والے ایک این جی او، ساجھے سپنے (پالم پور سب ڈسٹرکٹ کی قند باری بستی میں واقع، درمّا گاؤں کے پاس) کے ساتھ ’دیہی ترقی اور انتظام‘ پر مبنی ایک سالہ کورس کرتے ہوئے پاری کے ساتھ انٹرن شپ کی ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’’پاری کے ساتھ انٹرن شپ کرنے سے پہلے مجھے لگتا تھا کہ ایک اچھی اسٹوری لکھنے کے لیے صرف خیال آرائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن نرملا جی اور گُل ونش جی سے بات کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ اصلی کہانی کہنے کے لیے اور بھی بہت سی چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔ میری توجہ تصور سے ہٹ کر، ہمارے ذریعے استعمال کی جانے والی زبان اور اس کے الفاظ پر مرکوز ہوئی۔ میں نے سیکھا کہ اثردار کہانیاں اُن لوگوں کے الفاظ سے بنتی ہیں جو انہیں جی رہے ہوتے ہیں۔
میں نے اس پورے عمل میں اپنی طاقت بھی ڈھونڈ لی – کہ میں چیزوں کو غور سے دیکھ سکتی ہوں، لوگوں سے بات چیت کر سکتی ہوں، اپنے خیالات کا اظہار کر سکتی ہوں، اور کہانی کہہ سکتی ہوں۔ میرے اندر یہ فہم بھی پیدا ہوا کہ زمینی کام کیسے ہوتا ہے، اور لوگوں کو پریشان کیے بغیر ان کا انٹرویو کیسے لیا جاتا ہے۔ میرا پہلا ڈرافٹ، تیسرا ڈرافٹ بن گیا اور آخر میں پانچواں ڈرافٹ لکھا گیا؛ اور میں نے اسٹوری کے درمیان پیدا ہونے والے وقفے کی پہچان کرنا سیکھا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز
محمد قمر تبریز، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ہندی/اردو کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی، دو کتابوں کے مصنف ہیں، اور ’روزنامہ میرا وطن‘، ’راشٹریہ سہارا‘، ’چوتھی دنیا‘ اور ’اودھ نامہ‘ جیسے اخبارات سے منسلک رہے ہیں۔ ان کے پاس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے۔