قالین وان (قالین کا کرگھا) بند کر دیا گیا ہے۔ فاطمہ کے جس گھر میں پہلے قالین کی بُنائی ہوتی تھی، وہاں اب ان کے بھائی محمد کی فیملی رہنے کے لیے آ گئی ہے تاکہ گھریلو اخراجات کی بچت ہو سکے۔ ’’مئی ۲۰۲۱ میں جب میرے بھائی کا ٹیسٹ [کووڈ۔۱۹ میں] پازیٹو آیا تو ہم نے بُنائی کرنا چھوڑ دیا،‘‘ فاطمہ بیگم بتاتی ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر نظیر احمد بھٹ کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع کے گنڈ پرانگ گاؤں میں واقع اپنے گھر میں تقریباً ۲۵ برسوں سے قالین کی بُنائی کرتے آ رہے ہیں۔

وبائی مرض سے قبل فاطمہ کے چھوٹے بھائی، ۳۲ سالہ محمد اشرف ایک ٹیکسی ڈرائیور تھے، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کا کام رک گیا۔ وہ مقامی ٹیکسی اسٹینڈ پر کام کرتے تھے اور ماہانہ ۶ ہزار روپے کماتے تھے۔ ’’سال ۲۰۱۹ میں انہوں نے اپنی ٹاٹا سومو گاڑی فروخت کر دی کیوں کہ پرانی گاڑیوں کو بند کرنے کا آرڈر آ گیا تھا،‘‘ محمد کی بیوی شہزادہ بتاتی ہیں، چونکہ استھما اور کووڈ کی علامتوں کے سبب ان کے شوہر کو بات کرنے میں دقت ہوتی ہے، اس لیے ان کی طرف سے ساری باتیں وہی کرتی ہیں۔

ٹیکسی کو فروخت کرنے سے انہیں جو ایک لاکھ روپے ملے تھے، اسی پیسے سے انہوں نے مارچ ۲۰۲۰ کے لاک ڈاؤن کے بعد ایک سال تک گزارہ کیا، کیوں کہ تب محمد ٹیکسی نہیں چلا سکتے تھے۔ ان کے تین بیٹے ہیں – ۱۲ سالہ منیر، ۱۰ سالہ ارسلان اور ۶ سالہ عادل – جو اپنے گاؤں میں ہی ایک پوسٹ گریجویٹ طالب علم سے ٹیوشن پڑھتے ہیں۔ ان کی ٹیوشن فیس ۳ ہزار روپے ماہانہ ہے، جس میں نوٹ بُک اور پنسل کی قیمت بھی شامل ہے۔

محمد نے جہلم ندی کے کنارے (ریت جمع کرنے کی) یومیہ مزدوری کو جاری رکھنے کی کوشش کی، جس سے انہیں روزانہ ۵۰۰ روپے ملتے تھے۔ لیکن وہ پابندی سے کام پر نہیں جا پاتے تھے کیوں کہ استھما کی وجہ سے انہیں کام کرنے میں دقت ہوتی تھی۔

۲۱ مئی، ۲۰۲۱ کو جب محمد کو سانس لینے میں پریشانی ہونے لگی، تو شہزادہ مدد کے لیے پڑوس میں واقع فاطمہ اور نظیر کے گھر بھاگیں۔ انہوں نے ایمبولینس بلانے کی کوشش کی، لیکن حاجن کے مقامی سی ایچ سی [کمیونٹی ہیلتھ سنٹر] میں کسی سے ان کا رابطہ نہیں ہو سکا۔ ’’میرے شوہر، بیٹے اور بھائی کو تین کلومیٹر پیدل چلنا پڑا تب جاکر انہیں کسی نے لفٹ دی اور انہیں اسپتال تک پہنچایا،‘‘ مریض کے ساتھ اس لمبے سفر کو یاد کرتے ہوئے فاطمہ بتاتی ہیں۔

وہ جب حاجن کے سی ایچ سی پہنچے – جو کہ ۳ لاکھ سے زیادہ کی آبادی والے بانڈی پورہ ضلع کے تین سی ایچ سی میں سے ایک ہے – تو وہاں انہیں کوئی مدد نہیں ملی؛ محمد کے کووڈ پازیٹو پائے جانے کے بعد بھی نہیں۔ ’’ڈاکٹروں کا تو یہ حال تھا کہ وہ مریضوں کے پاس بھی نہیں آنا چاہتے تھے،‘‘ نظیر کہتے ہیں۔ اگلے دن محمد کو آکسیجن کی ضرورت پڑی۔ ان کی فیملی فوری طور پر جو کچھ کر سکتی تھی وہ کیا اور انہیں بانڈی پورہ میں آکسیجن والے واحد اسپتال – ڈسٹرکٹ ہاسپیٹل بانڈی پورہ (ڈی ایچ بی) پہنچایا۔

نظیر بتاتے ہیں، ’’میں ایمبولینس میں قرآن کی آیتیں پڑھ رہا تھا۔ یہ میری زندگی کا سب سے مشکل اور لمبا سفر تھا۔‘‘ وہ ڈی ایچ بی تک کے ۲۲ کلومیٹر لمبے سفر میں محمد کے ساتھ تھے۔

محمد کی بیوی شہزادہ نو مہینے کی حاملہ ہیں – بچے کی پیدائش کسی بھی وقت متوقع ہے۔ اپنے شوہر کے بارے میں فکرمند، وہ کہتی ہیں، ’’انہیں جب ڈسٹرکٹ ہاسپیٹل میں داخل کرایا گیا، تو میں نے اگلے ہی دن اپنے کان کی بالیاں فروخت کر دی تھیں۔ ان کی قیمت ۸ ہزار روپے تھی، لیکن میں نے انہیں ۴۵۰۰ روپے میں فروخت کیا کیوں کہ ہمیں بچوں کے لیے، گھر کے لیے سامان خریدنے تھے اور دوا وغیرہ کا انتظام کرنا تھا۔‘‘ گھر کو چلانے میں پریشانی کا سامنا کرنے کی وجہ سے، شہزادہ اپنے چار چھوٹے بیٹوں اور محمد کی بزرگ والدہ راجا بیگم کے ساتھ فاطمہ اور نظیر کے گھر آ گئیں۔

بائیں: شہزادہ بانو بانڈی پورہ ضلع کے سی ایچ سی حاجن میں اپنے حمل کا چیک اپ کرا رہی ہیں۔ اوپر دائیں: دس سالہ ارسلان شہزاداہ اور محمد کے چار بیٹوں میں سے ایک ہیں۔ نیچے: شہزادہ اپنے دو سال کے بیٹے اذان کے ساتھ۔ تصویر: عمر پارہ

ڈسٹرکٹ ہاسپیٹل میں، نظیر نے محمد کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ ’’کسی نہ کسی کو انہیں [آکسیجن] کنسنٹریٹر کے ساتھ واش روم لے جانا پڑتا ہے۔ انہیں کھلانے کی ضرورت پڑتی ہے، دوائیں دینی ہوتی ہیں اور ڈاکٹروں سے بات کرنا ہوتا ہے،‘‘ نظیر کے بیٹے، ۲۱ سالہ وسیم کہتے ہیں۔ بانڈی پورہ کے سمبل ٹاؤن میں واقع گورنمنٹ ڈگری کالج میں سال دوئم کے طالب علم، وسیم پچھلے مہینے ایک بھی آن لائن کلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔ ’’میرے بڑے بھائی مقصود کو کام کرنے اور فیملی کی مدد کرنے کے لیے ۱۰ویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑنا پڑا۔ جمشیدہ [بہن] جزوی طور پر نابینا ہیں، اور وہ ۹ویں کلاس کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں۔ صرف میری چھوٹی بہن آصفہ اور میں اپنی پڑھائی کو جاری رکھنے میں کامیاب رہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

محمد کی حالت جب زیادہ بگڑنے لگی، تو انہیں سرینگر کے شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایس کے آئی ایم ایس) منتقل کر دیا گیا۔ وہاں تقریباً تین ہفتے تک ان کا علاج چلا، پھر انہیں چھٹی دے دی گئی۔ لیکن اسپتال سے چھٹی ملنے کے باوجود، فیملی کا مالی بوجھ کم نہیں ہوا۔ انہوں نے مئی میں پڑوسیوں سے ۲۵ ہزار روپے قرض لیے تھے اور رشتہ داروں نے بھی کچھ مدد کی تھی۔ ’’ہم نے ماموں کے اسپتال بل پر ۵۷ ہزار روپے سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔ باقی لوگوں کے پیسے ادا کرنے ابھی باقی ہیں،‘‘ وہ قرض کے بوجھ پر فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

اس کے بعد مریض کی کووڈ کے بعد والی صورتحال کی دیکھ بھال ہے، جس کا انتظام کرنا نظیر اور ان کی فیملی کے لیے ضروری ہے۔ ’’گاؤں کی اوقاف (یا وقف) کمیٹی نے ان کے لیے ایک آکسیجن کنسنٹریٹر عطیہ کیا ہے کیوں کہ انہیں اس کی رات دن ضرورت ہے۔ لیکن یہاں ہر دو تین گھنٹے میں بجلی چلی جاتی ہے، اسی لیے ہمیں ۵۰۰ روپیہ یومیہ پر ایک جنریٹر کرایے پر لینا پڑا۔ اس کے ڈیزل پر ہمیں ۱۲۰۰ روپے مزید خرچ کرنا پڑتا ہے،‘‘ نظیر بتاتے ہیں۔

نظیر کے بڑے بیٹے، ۲۵ سالہ مقصود یومیہ مزدوری کا کام کرتے ہیں – اکثر گاؤں میں یا اس کے آس پاس تعمیراتی مقام پر۔ اس مزدوری سے انہیں ایک دن کے تقریباً ۲۰۰ روپے ملتے ہیں۔ ۱۰ افراد پر مشتمل یہ فیملی اسی پیسے اور رشتہ داروں کی مدد سے کسی طرح اپنا کام چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ فاطمہ کہتی ہیں کہ یہ روزانہ کا چیلنج ہے۔

محمد کی فیملی جب یہاں آئی، تو تین کمروں والے گھر میں سے جس ایک کمرے میں کرگھا تھا، اسے بند کرنا پڑا تاکہ یہ سبھی دس لوگ اس میں رہ سکیں۔ فاطمہ اور نظیر کا قالین کی بُنائی کا کام رک گیا۔ ’’ہم نے پچھلے سال ایک قالین بنانا شروع کیا تھا اور اسے پہنچانے کے بعد ہی ہمیں اس کے پیسے ملیں گے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ اس قالین سے انہیں تقریباً ۲۸ ہزار روپے ملیں گے۔ سرینگر کے ایک دکاندار کے ساتھ ان کا معاہدہ ہے جو بذریعہ کار سرینگر سے ان کے پاس آتا ہے، اور اپنے ساتھ نقشی (ڈیزائن)، اور خام مواد پنّ (سوت کے دھاگے اور اون کا آمیزہ) اور رنگ لیکر آتا ہے۔

فاطمہ بتاتی ہیں کہ پانچ فٹ بائی چھ فٹ کا قالین مکمل کرنے میں انہیں اور ان کے شوہر کو تقریباً ایک سال تک، ہفتہ میں چھ دن روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ ’’شادی کے بعد میں نے یہ کام نظیر سے سیکھا۔ اس وقت میں ۱۵ سال کی اور وہ ۱۶ سال کے تھے،‘‘ فاطمہ یاد کرتی ہیں۔ ’’میں قالین قائم [قالین کی بُنائی] کا کام تب سے کر رہی ہوں، جب ایک دن کی مزدوری پانچ روپے ملتی تھی۔ آج بھی، ہم جو کچھ کماتے ہیں [ایک دن میں ۸۰ روپے] وہ کافی نہیں ہے،‘‘ نظیر کہتے ہیں۔

۲۰۱۱ کی مردم شماری بتاتی ہے کہ گنڈ پرانگ میں فاطمہ اور نظیر کے گھر سے محض چھ کلومیٹر دور واقع حاجن ٹاؤن میں تیار اور برآمد کی جانے والی اشیاء میں سب سے اہم قالین ہے۔ پھر بھی، ان کے جیسے قالین کی بنائی کرنے والے کنبے اتنا بھی نہیں کما پاتے کہ اچھی زندگی گزار سکیں۔ ستمبر میں جب سیب کا موسم شروع ہوتا ہے، تو نظیر ۴۰۰ روپے یومیہ اجرت پر زرعی مزدوری کا کام کرتے ہیں۔ لیکن یہ کام صرف ۱۰ دنوں تک ہوتا ہے۔ جون اور جولائی میں چار سے پانچ دنوں تک دھان کی روپائی سے بھی ان کی روزانہ اتنی ہی کمائی ہوتی ہے۔

طبی اخراجات کے لیے قرض لینے اور اپنے واحد گارنٹی والے ذریعہ معاش، یعنی بُنائی کے کام کو جاری رکھنے کے لیے جگہ کی کمی کے سبب نظیر اور فاطمہ کی مالی حالت بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ شہزادہ شکر گزار ہیں کہ انہیں یہ مدد حاصل ہوئی اور ان کے شوہر اسپتال سے واپس آ گئے ہیں۔ محمد کے گھر پر ہونے، اور شہزادہ کے بچے کی جلد ہی پیدائش کی وجہ سے، قرض کے متعلق ان کی فکرمندیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔

Editor's note

عمر پارہ اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اگنو) سے صحافت کا انڈر گریجویٹ کورس کر رہے ہیں؛ وہ کچھ سالوں سے فوٹو گرافی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پاری میں جس طرح اسٹوری بیان کی جاتی ہے، وہ میرے لیے سیکھنے کا ایک تجربہ تھا۔ میں نے سیکھا کہ چھوٹی تفصیلات بھی معنی رکھتی ہے۔ کسی کے نام کے صحیح املا سے لیکر آیا ان کا گاؤں مردم شماری میں درج کیا گیا ہے، اس قسم کی ہر ایک چیز کو مجھے کراس چیک کرنا پڑا۔ یہ عمل ڈیٹا تلاش کرنے کا ایک سبق تھا جو اسٹوری کو سچا بناتا ہے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز
ک صحافی، دو کتابوں کے مصنف ہیں، اور ’روزنامہ میرا وطن‘، ’راشٹریہ سہارا‘، ’چوتھی دنیا‘ اور ’اودھ نامہ‘ جیسے اخبارات سے منسلک رہے ہیں۔ ان کے پاس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے۔