
’’میری بکریاں اور بھیڑیں ہمیشہ وہ چھوٹا راستہ نہیں لیتیں، جو میں لیتا ہوں اور ایک دن میں نے سات بکریاں کھو دیں۔ فیملی نے اسی دن تک مجھ پر مویشیوں کو لیکر اعتماد کیا۔ خوش قسمتی سے واپس آ گئیں!‘‘ ۱۸ سالہ ہرپال سنگھ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، جو دہرہ دون ضلع کی چکراتا تحصیل میں بکریاں اور بھیڑیں چراتے ہیں۔
پوری چکراتا تحصیل میں ہمالیہ کے شیوالک سلسلہ کے پہاڑ اور وادیاں ہی ہیں اور وہاں بہت سارے گھاس کے میدان اور چراگاہیں ہیں، جہاں ہرپال جیسے چرواہے اپنے مویشیوں کو چرانے لے جاتے ہیں۔ دہرہ دون ضلع کی ۴۳ اعشاریہ ۷ فیصد زمین جنگل کے اندر آتی ہے، اور ریاست کا مغربی حصہ صنوبر اور دیگر درختوں سے بھرا ہوا ہے۔
اس علاقے کا نام پہلے ’جونسارا باور‘ تھا، یہ نام اب بھی یہاں کے رہنے والے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں بولی جانے والی زبان کا نام ’جونساری‘ ہے اور یہاں کے لوگ بھی اپنے آپ کو اسی نام سے بلاتے ہیں۔ ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق جونساری ایک درج فہرست ذات ہے اور ان کی کل آبادی ۸۸۶۶۴ ہے – ذیلی ذات جیسے کھسس اور کولتس (کاریگر) بھی شامل ہیں۔ زیادہ تر جونساری موسم کے حساب سے مہاجرت کرنے والے چرواہے ہیں۔
ہرپال کا تعلق گورچھا کے چرواہوں کی ایک لمبی نسل سے ہے، ۲۷۰ لوگوں کا یہ گاؤں چکراتا تحصیل میں ہے۔ وہ اپنے گاؤں میں ایک سرکاری اسکول میں پڑھتا ہے اور حال ہی میں اس نے ۱۰ویں کا امتحان دیا ہے اور امید کرتا ہے کہ مستقبل میں اسے ایک سرکاری نوکری مل جائے گی۔ ’’اسکول میں، ہمارے ٹیچر ہمیں دیگر نوکریاں حاصل کرنے، شہر کی نوکریاں حاصل کرنے کی صلاح دیتے ہیں نہ کہ چرواہے کی،‘‘ وہ بتاتا ہے۔ وہ کالج جانا چاہتا ہے: ۱۵۰ کلومیٹر دور واقع ریاست کی راجدھانی، دہرہ دون ایک تعلیمی مرکز ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں وہ جانا چاہتا ہے۔
’’مویشی پروری اور مویشی چرانا اس علاقے میں کبھی بہت ہی اہم پیشہ مانا جاتا تھا۔ ہمیں سماج میں بہت عزت ملتی تھی،‘‘ ۶۲ سالہ کنور سنگھ بتاتے ہیں، جو گورچھا میں ایک چرواہے اور کسان ہیں۔ ’’میرے بعد کوئی بھی [مویشی چرانے کے لیے] نہیں جائے گا۔ یہ بہت ہی کھڑی چڑھائی ہے اور ان نوجوانوں کے پیروں میں درد ہوتا ہے۔‘‘
کنور سنگھ اور چرواہے اب پیسے کمانے کے لیے باغبانی (سیب کے باغ میں) کرنے لگے ہیں۔ ’’اگلی نسل صرف باغبانی پر ہی منحصر رہے گی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ گورچھا اور کنوا گاؤوں میں تقریباً ۱۵ ایکڑ زرعی زمین پہلے ہی سیب کی پیداوار کے لیے بدل دی گئی ہے۔ ’’سیب کی باغبانی کرنے والوں کو عزت ملتی ہے۔ جب ہم منڈی میں جاتے ہیں، تو ہمیں بیٹھنے کے لیے کرسی ملتی ہے اور ساہوکار ہمیں چائے دیتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
بغل کے کنوا گاؤں میں، جہاں ۲۸۶ لوگ رہتے ہیں، ۲۰ سالہ سمت چوہان بھی چرواہوں کی فیملی سے آتے ہیں، اور اس بات پر متفق ہیں: ’’میں ایک قاعدے کی نوکری کرنا چاہتا ہوں، یہ (مویشی چرانا) نہیں۔ اس کام میں مجھے پیسے نہیں ملیں گے، شہر میں رہنے سے ملیں گے۔ میرے تمام دوستوں کو شہر میں نوکریاں مل جائیں گی اور وہ مجھے چڑھائیں گے کہ پڑھائی کرنے کے بعد بھی میں ایک چرواہا ہوں۔ میری فیملی تو یہ کام کرتی ہی ہے۔‘‘
سمت نے مویشی پروری اور مویشی چرانے کے بارے میں سب کچھ اپنے ۴۸ سالہ نانا، جوہر سنگھ سے سیکھا ہے۔ اپنے نانا کے وفادار بھوٹیا کتّے کے ساتھ انہوں نے پہاڑوں کا سفر کیا ہے، اپنی ۶۰ بکریوں اور ۱۰ بھیڑوں کے ساتھ، جو کہ پشمینہ اور گڈی نسلوں کا امتزاج ہیں، انہیں لیکر ایک دن میں ۲۰ کلومیٹر سے بھی زیادہ کی دوری طے کی ہے۔

ہرپال اور سمت جیسے نوجوان مویشی چرانے کو ایک با عزت یا ایک اقتصادی طور پر مستحکم مستقبل کی شکل میں بھی نہیں دیکھتے ہیں۔ سمت کے نانا، جوہر سنگھ جو چھ سال کی عمر سے ہی مویشی چرا رہے ہیں، مانتے ہیں: ’’گاؤں میں کام کرنے پر آپ کو کھانا، صاف ہوا اور پانی تو ملے گا لیکن باقاعدہ آمدنی نہیں ملے گی۔‘‘
جونسار علاقے میں، کچھ دنوں پہلے تک، ادائیگی کا طریقہ اشیاء کے بدلے اشیاء تھا اور روپے کا کوئی بھی لین دین نہیں ہوتا تھا۔ اناج اور دوسری فصلوں کو ادائیگی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور ادائیگی کے اس نظام کو ’فصلانا‘ کہا جاتا تھا۔ ’’لوہاروں سے لیکر تعمیراتی مزدوروں تک، گلوکاروں اور ڈھول بجانے والوں سے لیکر بنکروں تک، پورے سال سبھی کی ادائیگی فصلانا کے تحت ہوتی تھی،‘‘ کنور سنگھ بتاتے ہیں۔
لیکن گزشتہ تقریباً ۲۰ برسوں سے یہاں کی اقتصادیات میں روپیہ داخل ہوا ہے، جو کہ ساہیا کے پاس یا سہارنپور میں تھوک بازاروں میں سبزیوں کی فروخت سے آتا ہے اور بارڈر روڈ آرگنائزیشن کے ذریعے کی گئی تعمیر اور سڑک کی مرمت کے کام سے آتا ہے اور مہاتما گاندھی دیہی روزگار گارنٹی قانون (منریگا) سے آتا ہے۔
’’لوگ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے آپ کو نقدی چاہیے – ان کی فیس بھرنے کے لیے اور گھر کے باہر ان کے خرچ اٹھانے کے لیے،‘‘ جوہر سنگھ بتاتے ہیں۔ ان کی فیملی کے پاس تقریباً ڈیڑھ ایکڑ زمین ہے، جس پر ان کا اور ان کے چار بھائیوں کا مالکانہ حق ہے، جس پر وہ چاول، گیہوں، راجما، دائیں اور سبزیاں اُگاتے ہیں۔ ’’کھیتی سے آمدنی نہیں آتی ہے۔ کبھی کبھی ہم لوگ تھوڑا سا راجما بازار میں بیچنے کے لیے بھیجتے ہیں؛ وہ ۴۰ روپے فی کلوگرام فروخت ہوتا ہے۔ جب آپ ان روپیوں کو چھ بھائیوں اور ان کے کنبوں میں تقسیم کرتے ہیں توپھر کچھ بھی نہیں بچتا ہے۔‘‘
جونسار میں کسانوں کے درمیان بکری کی تازہ کھاد کی بہت زیادہ قیمت تھی اور چرواہوں کو دعوت دی جاتی تھی کہ وہ اپنے مویشیوں کو دوسروں کے کھیت میں باندھیں۔ ’’اس کھاد کی بہت زیادہ مانگ تھی۔ اب یہ کھاد بھی شہر سے آتی ہے،‘‘ کنور سنگھ بتاتے ہیں۔
مویشی پروری اور مویشی چرانا
جوہر سنگھ ستّر کی دہائی کا زمانہ یاد کرتے ہیں جب وہ ۸۰۰ بھیڑیں اور بکریاں چراتے تھے، آج سے دس گنا زیادہ۔ وہ بتاتے ہیں کہ اب چرانے کے لیے چراگاہ ڈھونڈنا مشکل ہو گیا ہے۔ ’’پہلے ہم پہاڑ چڑھ کر جاتے تھے،‘‘ وہ گاؤں سے نظر آنے والے سب سے دور کے پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ ’’اب ان بلندیوں میں ہری گھاس نہیں بچی ہے اور اس عمر میں مجھ میں اتنی طاقت نہیں بچی ہے کہ میں مویشیوں کو وہاں لے جا سکوں جہاں ہریالی ابھی بھی بچی ہے۔‘‘

فیملی میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے، جوہر سنگھ نے اپنے والد کے ساتھ مویشی چرانا تبھی شروع کر دیا تھا جب وہ بہت چھوٹے تھے، اور کبھی بھی اسکول نہیں گئے۔ لیکن ان کے پانچوں بھائی اسکول گئے تھے اور وہ سبھی میدانی علاقوں میں ڈرائیور، تعمیراتی ٹھیکہ دار کی نوکری کرتے ہیں اور ایک بھائی جس کے پاس گریجویشن کی ڈگری ہے، وہ بینک میں کام کرتا ہے۔
’’گاؤں خالی ہو گیا ہے۔ میرے گھر میں ۵۰ لوگ ہوا کرتے تھے، اور اب ہمارے بڑے سے گھر میں صرف چھ لوگ رہتے ہیں،‘‘ کنور سنگھ بتاتے ہیں۔ ان کا گھر روایتی طریقے سے بنا ہے – کاٹھ-کونی کہلاتا ہے – جہاں جانور اور انسان ایک ساتھ رہ سکتے ہیں: سب سے نچلی منزل جانوروں کے لیے، درمیانی منزل فصل جمع کرنے کے لیے اور سب سے اوپری منزل فیملی کے لیے۔
چکراتا کے سبھی گاؤوں میں جب سردیوں کے دنوں میں درجہ حرارت تقریباً صفر سے ۴ ڈگری سیلسیس ہو جاتا ہے، تب چرواہے ندی وادیوں میں چراگاہوں کی طرف مہاجرت کرتے ہیں۔ گرمیوں میں، وہ لوگ اوپر کی طرف پگھلتی ہوئی برف سے ڈھکے ہرے بھرے گھاس کے میدانوں کی طرف آ جاتے ہیں اور وہاں ایک عارضی گھر جسے ’چانی‘ کہتے ہیں، بناکر رہتے ہیں۔

۴۵ سالہ پشپا چوہان اپنے ۵۲ سالہ شوہر نریش سنگھ چوہان، جو گورچھا کے ایک چرواہے ہیں، کے ساتھ چانی جاتی ہیں۔ وہ گھر کے سارے کام کرتی ہیں اور ساتھ میں گھی اور شہد بھی نکالتی ہیں۔ ’’میں دودھ نکالنے کے لیے صبح ۴ بجے اٹھتی ہوں، پھر کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنے جنگل میں جاتی ہوں۔ مجھے مویشیوں کے کھانے کے لیے گھاس بھی لانی پڑتی ہے – ہمارے پاس ایک گائے بھی ہے، اور پھر کھانا بنانے کا وقت ہو جاتا ہے۔‘‘
جوہر سنگھ بتاتے ہیں کہ وہ چانی میں جانوروں کے بالوں سے دھاگہ بُن کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ’’مجھے یاد بھی نہیں ہے کہ میں نے کتنے چورس (کوٹ) کے لیے دھاگے بنے ہیں۔‘‘
اب یہ چانی خالی پڑی رہتی ہے۔ اب تو جوہر سنگھ نے بھی سردیوں میں گاؤں میں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور مویشیوں کو روزانہ سب سے پاس کے گھاس کے میدان میں ہی چرانے لے جاتے ہیں۔ ’’ہم نے کئی سارے اچھے گھر بنائے جو گرمیوں اور سردیوں میں چانی کی طرح استعمال کیے جا سکتے تھے، لیکن اب سبھی اس پیشہ کو چھوڑ رہے ہیں،‘‘ اس المیہ پر مسکراتے ہوئے کنور سنگھ کہتے ہیں۔
گرم موسم
کنور سنگھ کی فیملی کے پاس اب صرف ۵۰ بکریاں، چار بھیڑیں اور کچھ ہی بیل اور گائیں ہیں، جو کہ اس ریوڑ کا چھوٹا سا حصہ ہیں جو ستّر کی دہائی میں ان کے پاس تھے – ہزار بکریاں، ۵۰۰ بھیڑیں اور ۱۰ بیل – جنہیں وہ اپنے دو ایکڑ کھیت پر، جس پر وہ دھان اور سبزیاں اگاتے ہیں، اس پر استعمال کرتے ہیں۔ ’’ہماری سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ برفباری میں کمی آ رہی ہے۔ گھاس کو اگنے کے لیے نمی چاہیے۔ میری بکریوں کو اچھی گھاس کھانے کی عادت ہے، لیکن اب وہ کچھ بھی کھالیتی ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

کنور سنگھ کی یہ تشویش کہ جانوروں کے چرنے کے لیے گھاس میں کمی آ رہی ہے، یہ بات بلند پہاڑی سلسلوں پر اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی پر بین حکومت پینل کے ذریعے شائع ۲۰۱۹ کی رپورٹ – بدلتے ماحولیات میں سمندر اور کرایو اسفیئر پر خصوصی رپورٹ – کے ذریعے حمایت یافتہ ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ برف کی گہرائی میں ۲۵ فیصد کی کمی آئی ہے اور جو پودے برف پر منحصر ہیں ان کی افزائشی صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے، جس سے چرواہے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
’’دسمبر میں برفباری ہوا کرتی تھی، جو کہ تقریباً پانچ فٹ گہری ہوتی تھی اور مارچ تک بنی رہتی تھی۔ گاؤں سے نکلنے والی سڑک برف کی وجہ سے تقریباً دو مہینے کے لیے بند رہتی تھی اور اسے ہاتھوں سے صاف کرنا پڑتا تھا،‘‘ گورچھا کے ۴۸ سالہ رہائشی، پران سنگھ کہتے ہیں۔ ’’اب صرف دو دن برفباری ہوتی ہے اور بلڈوزر یا جے سی بی اسے کچھ گھنٹوں میں ہی صاف کر دیتے ہیں۔‘‘
برف چاور – چاول کی ایک قسم جو صرف بہت ٹھنڈے پانی میں ہی اُگتی ہے – کو اُگنے میں مدد کرتی ہے اور جسے جونساری لوگ شادیوں اور مندر کے پرساد میں استعمال کرتے ہیں۔
’’چاور کی فصل پوری طرح سے اُگنی بند ہو گئی ہے۔ آپ کو ایک بیج بھی نہیں مل سکتا کیوں کہ گاؤں کی کسی بھی فیملی کے پاس یہ دستیاب نہیں ہے،‘‘ چوہان بتاتے ہیں۔ ’’چاول کی اس قسم کی خوشبو آپ کو ایک کلومیٹر دور سے آ جاتی تھی!‘‘ وہ اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب یہ قسم ایک ہزار روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہوتی تھی اور تہواروں پر بکرے کے گوشت کے ساتھ پیش کی جاتی تھی۔
برف کی کمی کے ساتھ ساتھ ہمالیائی علاقوں میں درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔ جون ۲۰۱۹ میں سائنس ایڈوانسز میں شائع ایک مضمون کے مطابق، سلسلہ وار درجہ حرارت بڑھنے کی شروعات ۱۹۹۰ کی دہائی میں ہوئی تھی۔
روایتیں ختم ہونے لگی ہیں
درجہ حرارت بڑھنے کی اس فطرت کا جونساری لوگوں کی تہذیب اور ان کے طرزِ زندگی پر درور رس اثر ہو رہا ہے۔ چرواہے مویشیوں کی تعداد کم کر رہے ہیں کیوں کہ ان کے لیے چارہ اور گھاس ڈھونڈنا مشکل ہو رہا ہے۔ گرم موسم کی وجہ سے بھیڑ اور بکریوں کے خالص اون سے بنے روایتی کپڑے جیسے چورس (کوٹ) کی مانگ میں کمی آ رہی ہے۔ یہ چورس اتنے گرم ہو جاتے ہیں کہ ہم انہیں پوری طرح سے پہن نہیں پاتے ہیں، صرف کندھوں پر رکھ لیتے ہیں۔ پہلے، نومبر میں ہی ہم دو چورس پہننا چاہتے تھے۔‘‘
۳۰ سالہ کیسر سنگھ چوہان بتاتے ہیں، ’’گورچھا میں میرے دادا میرے ذریعے دہرہ دون سے لائی گئی ٹوپی اور جیکٹ پہننا پسند کرتے ہیں۔ لوگ روایتی کپڑے نہیں پہننا چاہتے ہیں؛ اب تو گاؤں میں رہنے والے لوگوں کی بھی کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ہے۔‘‘
تہواروں کے دوران یا پھر جب مہمان آتے تھے، تب لوگ کھرسا (بکری کے بالوں سے بنی چٹائی) پر بیٹھتے تھے، لیکن اب جونساری لوگ میدانی علاقوں سے خریدی گئی پلاسٹک کی چٹائیاں نکالتے ہیں جو زیادہ مقبول ہیں۔ کنوا کے ۴۲ سالہ بُنکر، پنگیا سنگھ کہتے ہیں، ’’اب کوئی کھرسا کو نہیں پوچھتا ہے، وہ اب موسمی بن گئے ہیں۔ ایک دہائی پہلے تک بہت سارے مویشی ہوا کرتے تھے اور بہت سارے بال، تو ہم لوگ پورے سال سامان بناتے تھے۔ اب ہم بس اون کترنے والے موسم کے بعد ہی بناتے ہیں۔‘‘

پنگیا سنگھ کا تعلق کولٹا برادری سے ہے اور یہ لوگ اونی کمبل اور چٹائیاں بناتے ہیں، جو پنکھی اور نمدہ کہلاتے ہیں، اور کھرسا (بکری کے بالوں سے بنی موٹی چٹائی) اور کھُرسَو (سردیوں کے دنوں میں برف میں پہننے والے واٹر پروف جوتے) اور چورا بناتے ہیں۔ اپنے ہنر کے بارے میں سمجھاتے ہوئے پنگیا سنگھ کہتے ہیں، ’’ہم ہلکی لکڑی سے بنے، جو سنبھالنے میں آسان ہو، رانچ [کرگھا] کا استعمال کرتے ہیں۔ آپ سیب یا خوبانی کی لکڑی کا استعمال کر سکتے ہیں، لیکن مضبوط دیودار اور چیڑ کی لکڑی کا کبھی نہیں۔‘‘ ہر سامان کے لیے الگ الگ پیمائش کا کرگھا ہوتا ہے اور کھُرسَو کے لیے صرف دھاگے اور سوئی کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ چورا بُننے میں دس دن لگ سکتے ہیں؛ اب جب کہ گرم کپڑے میدانی علاقوں سے آتے ہیں، ان کی مانگ کافی کم ہو گئی ہے۔
۳۴ سالہ ٹیکم سنگھ گورچھا کے چرواہوں کی فیملی سے آتے ہیں اور وہ اپنی فیملی کے پہلے گریجویٹ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میری فیملی کے نوجوانوں کو جونساری ہونے کا مطلب بھی نہیں معلوم ہے۔ میرے بچپن میں ہم لوگ جو تہوار مناتے تھے، اب تو وہ نظر بھی نہیں آتے ہیں۔ جب بچے شہروں سے واپس آتے ہیں، وہ لوگ میگی کھانا چاہتے ہیں۔ وہ لوگ اصلی گھی اور چاول ہضم نہیں کر پاتے ہیں؛ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ گاؤں کا تو بس اب نام کا [جونساری] ہی رہ گیا ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز
محمد قمر تبریز ۲۰۱۵ سے ’پاری‘ کے اردو/ہندی ترجمہ نگار ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی، دو کتابوں کے مصنف، اور ’روزنامہ میرا وطن‘، ’راشٹریہ سہارا‘، ’چوتھی دنیا‘ اور ’اودھ نامہ‘ جیسے اخباروں سے جڑے رہے ہیں۔ ان کے پاس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں گریجویشن اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے۔
Editor's note
ریتوجا مترا نے ۲۰۲۰ میں عظیم پریم جی یونیورسٹی سے ڈیولپمنٹ اسٹڈیز میں دوسرا ایم اے کیا ہے۔ انہوں نے اپنے تحقیقی مقالہ کے لیے جونسار کے چرواہوں اور کاریگروں پر مطالعہ کیا تھا اور روایتی علم اور برادری کے رسم و رواج کے بارے میں جانا۔ وہ کہتی ہیں، ’’پی سائی ناتھ کے ساتھ ہوئی گفتگو اور بعد میں ہماری یونیورسٹی میں پاری ایجوکیشن کی پیشکش نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میں نے سماجیات، ماحولیات اور بشریات کو صحافت کے نقطہ نظر سے سمجھا، جنہیں ہم دوسرے تعلیمی شعبہ کا حصہ مانتے ہیں۔‘‘