اس نے گائے کی چوڑائی، مرغ کی لمبائی کو ناپا ہے اور مختلف قسم کے پتّوں کا خاکہ بنایا ہے۔ اس نے کئی قسم کے بیجوں کو ان کے استعمال کے مطابق چھانٹنا بھی سیکھا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ۱۳ سال کی اس لڑکی نے اپنی ہم جماعتوں کے ساتھ، ’’ہمارے گاؤں کے نقشے‘‘ بنائے ہیں۔ اس نے مانگ کی کہ ’’میں اپنے ہی گاؤں، مضافات، اپنے بلاک اور ضلع میں بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کروں۔ تب میں اسے صحیح طریقے سے بنا سکتی تھی۔‘‘

لاک ڈاؤن کے سبب سنجنا ماجھی شاید مہینوں اسکول سے باہر رہی۔ لیکن اس نے کبھی سیکھنا نہیں چھوڑا۔ اوڈیشہ کے سندر گڑھ ضلع میں اس آدیواسی لڑکی کا رویہ مارک ٹوین کے مشہور الفاظ کو نیا معنی دیتا ہے: ’’اپنی تعلیم میں اسکول کوکبھی بھی مداخلت نہ کرنے دیں۔‘‘ سنجنا کے پاس ایک ٹیچر ہے، جو جسمانی طور پر سرگرم ہے، بھلے ہی اس کا اسکول نہ ہو۔

کسان آدیواسی برادری کی یہ نئی نوجوان لڑکی ان ۵۳ بچوں میں سے ایک ہے، جسے ۲۶ سالہ رشمی جے پوریہ اسکول کے باہر پڑھاتی ہیں۔ رشمی کے لیے، اس کا مطلب ہے اس ضلع کے ٹنمورہ گاؤں میں زیادہ تر آدیواسی اور دلت کنبوں کی پانچ بستیوں میں جانا۔ میں انہیں سکھا رہی ہوں کہ کیسے مشاہدہ کرنا ہے، کیسے اپنے نتائج کے نوٹس بنانے ہیں اور [اپنے ارد گرد کی چیزوں کے بارے میں] پوچھ گچھ کرنی ہے۔ اس عملی تعلیم میں انہیں مزہ مل رہا ہے۔‘‘ رشمی کی طرح، دیگر ٹیچر بھی غریبوں کے گھروں تک تعلیم پہنچانے کی چنوتی کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔

’’میں اس کلاس کو پاس کرکے آگے نکل جاؤں گی،‘‘ شکتی مے بیہیرا پورے اعتماد سے کہتی ہے۔ ’’چونکہ راکھی [ترپاٹھی] ٹیچر میرے گھر [اوڈیشہ کے جاج پور ضلع میں] پڑھانے کے لیے آتی ہیں، اس لیے میرا لکھنے اور دیگر پڑھائی کا کام لاک ڈاؤن کے سبب بند نہیں ہوا۔‘‘ مادھو پور گاؤں کے گورنمنٹ ہائی اسکول کی ۱۲ سالہ طالبہ، شکتی مے ڈاکٹر بننے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

’’میں نے ان کے اسکول کی ایک تصویر کھینچی اور بچوں کو دکھایا کہ کیسے بڑی سے بڑی چیز کو – جتنا ممکن ہو اتنی تفصیل سے – چھوٹا بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ سُندر گڑھ کی کُترا تحصیل میں رہنے والے ۲۴ سالہ ٹیچر، نوٹپ بیہیرا بتا رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ لاک ڈاؤن نے، اپنے تمام مسائل کے ساتھ، انہیں نصابی کتاب پڑھانے کی قید سے آزاد کر دیا ہے۔ وہ مقامی ندی کو پار کرکے گنگا جل گاؤں پہنچ کر اپنے طلبہ کو لائف سائنس پڑھا سکتے ہیں۔ مقامی ذہانت کی تعمیر کرنا اور جغرافیہ پڑھانا مزید تخلیقی اور ٹھوس بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے اپنی بستی، گاؤں، گرام پنچایت، بلاک – اور یہاں تک کہ دنیا کے نقشے بنانے لگے۔

طلبہ کے ذریعے ہاتھ سے بنائے گئے گاؤں کے نقشے دیکھنے کے لیے ایرو پر کلک کریں

اگر آپ پیاسے ہیں، تو ہینڈ پمپ تلاش کرنے کے لیے آپ ۱۰ سالہ آشیش کمار مُدولی کے ذریعے بنائے گئے اس کے گاؤں کے نقشہ کا استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ واضح طور سے، جاج پور ضلع کے سوکِنڈا بلاک میں گاؤں کے تالاب، اس کے اسکول، آم کے باغ، زرعی کھیتوں، کھلی جگہوں اور جنگل کے نشان زد ہے۔

سنجنا، شکتی مے اور آشیش خوش قسمت ہیں – اسکول ان کے گھر آ گیا ہے۔ لیکن ہندوستانی تعلیم میں ڈجیٹل تقسیم نے کئی بچوں، خاص کر ۱۱۰۲۷۸۳ سرکاری اسکولوں کے طلبہ کو کلاس سے باہر کر دیا ہے۔ پہلی نسل کے طالب علموں کے لیے، اسکولی تعلیم میں فرق اکیڈمک طور پر خطرناک ہو سکتا ہے۔ دیہی اوڈیشہ میں، پانچ میں سے تقریباً ایک بچہ اسکول چھوڑ دیتا ہے، اور جھارکھنڈ میں صرف ۲۲ فیصد دیہی نوجوان ہی اپنی اسکولی تعلیم مکمل کر پاتے ہیں۔

’’میں اپنے گاؤں [باڑاجمدا] میں بہت سارے بچوں کو ہاتھ سے مزدوری کرتے دیکھتی ہوں۔ کچھ طالب علم اسکول جانا اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس کاپی، کتاب یا پینسل تک کے لیے پیسے نہیں ہوتے،‘‘ فکرمند نظر آ رہی رشمی گوپ کہتی ہے۔ سن بلوغت میں داخل ہو رہی رشمی، جھارکھنڈ کے نوآمُنڈی ضلع میں اپنے اسکول میں بنے رہنا اور آخر میں ایک ٹیچر بننا چاہتی ہے۔ اس کی ٹیچر، ۲۴ سالہ سندھیا رانی تانتی کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن نے ان کے کئی طالب علموں کو چھین لیا اور انہیں یومیہ مزدور کے طور پر گھروں میں کام کرنے سے واپس لانا پڑا۔


صرف ۵ اعشاریہ ۸ فیصد دیہی اوڈیشہ اور ۱۱ اعشاریہ ۹ فیصد دیہی جھارکھنڈ میں انٹرنیٹ ہے۔ خاکہ: انترا رمن

سائیکل اور اسکوٹر پر سفر کرکے، اور یہاں تک کہ کئی بار پیدل چل کر، سندھیا، رشمی جے پوریہ، راکھی، نوٹپ اور دیہی اوڈیشہ اور جھارکھنڈ کے ۷۰۰ دیگر ٹیچروں نے آن لائن جیسا متبادل ڈھونڈ لیا ہے۔ ’’جب میں نے ٹیچر کے طور پر شروعات کی، تو مجھے سائیکل بھی چلانا نہیں آتا تھا، لیکن اب میں اسکوٹی چلا لیتی ہوں۔ میں بہت اچھا ڈرائیو کر لیتی ہوں!‘‘ ۲۷ سالہ پنکی ساہو بتاتی ہیں۔ گاڑی چلانے کا یہ ہنر لاک ڈاؤن کے دوران اوڈیشہ کے کیندوجھار ضلع (جسے کیونجھار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کے ہری چندن پور بلاک میں گھومنے میں ان کے کام آنے لگا۔

ان ٹیچروں نے جون سے اب تک سینکڑوں کلومیٹر کی دوری طے کی ہے۔ وہ زیادہ تر دیہی اور قریبی ضلعوں- اوڈیشہ کے جاج پور، کیندوجھار، ڈھینکنال اور سندرگڑھ اور جھارکھنڈ کے مغربی سنگھ بھوم ضلع کا سفر کرتے ہیں – اور اسے ایک نئے قسم کی ہوم اسکولنگ کہتے ہیں۔ وہ گھر گھر جا رہے ہیں، چھوٹے گروہوں (ایک وقت میں ایک سے پانچ شخص) میں طلبہ سے مل رہے ہیں اور درختوں کے نیچے، گھر کے آنگن میں اور دیگر کھلے مقامات پر ان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

’’شروع میں یہ لُکا چھپی کا کھیل لگتا تھا،‘‘ نبیدتا موہنتا ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔ کیندوجھار ضلع کے بھانڈا گاؤں کی یہ ۲۳ سالہ ٹیچر اپنے طلبہ کو تلاش کرنے کے لیے کھیتوں میں، ندی کے پاس اور کہیں بھی پہنچ جاتی تھی۔

اپنے طلبہ کا پیچھا کرتے ہوئے، وہ سب سے کمزور اور سب سے غریب ۳۱ ہزار طالب علموں تک پہنچنے میں کامیاب رہے، جن کے لیے آن لائن تعلیم کسی پری کی کہانی کی طرح ہے: دیہی اوڈیشہ کے صرف ۵ اعشاریہ ۸ فیصد اور دیہی جھارکھنڈ کے ۱۱ اعشاریہ ۹ فیصد میں انٹرنیٹ ہے۔

فیملی کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے، اس لیے اگر ’دیدی‘ نہیں آتیں تو انل کی پڑھائی رک جاتی۔ اپنی ٹیچر نندنی بیہیرا کو وہ ’دیدی‘ کہتا ہے۔ تبریز انصاری کے ذریعے کھینچی گئی تصویر

’’میں زیادہ کچھ نہیں کر رہا ہوتا، اگر یہ کلاسز نہیں ہوتیں تو میں شاید دن بھر گھومتا رہتا،‘‘ انل چمپیا واضح طور سے قبول کرتا ہے۔ دہاڑی مزدور کے بیٹے، ۱۳ سالہ انل کو اپنے ان دوستوں کی یاد آتی ہے، جن کے ساتھ وہ جھارکھنڈ کے نوآمُنڈی بازار کے سرکاری اسکول میں کھیلا کرتا تھا۔ فیملی کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے، اس لیے اگر ’دیدی‘ نہیں ہوتیں تو اس کی تعلیم رک جاتی اور انجینئر بننے کا خواب ٹوٹ جاتا۔ وہ اپنی ٹیچر نندنی بیہیرا کو ’دیدی‘ کہتا ہے، جو اسے اور طلبہ کے ایک چھوٹے گروپ کو پڑھانے کے لیے اس کے گاؤں، لکھن سائی آتی ہیں۔

نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اس وقت ۳ کروڑ ۲۲ لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں اور انہیں واپس لانے کے لیے، ٹیچروں کو ’برادری کے ساتھ جڑنا‘ ہوگا اور طلبہ کو ’پڑھتے کیسے ہیں یہ سکھانے کے لیے‘ پڑھانا ہوگا۔

’’والدین اپنے بچوں کی تعلیم میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں کیوں کہ وہ ٹیچروں کو اکثر اور قریب کے مقامات پر دیکھتے ہیں۔ میں نے والدین کے ساتھ ایک رشتہ بنایا ہے اور وہ پڑھانے کے لیے مجھے اپنے برآمدے کی پیشکش کرتے ہیں،‘‘ نبیدتا بتاتی ہیں۔

نئے قسم کی ہوم اسکولنگ: ٹیچروں نے جون سے اب تک سینکڑوں کلومیٹر کی دوری طے کی ہے۔ وہ زیادہ تر دیہی اور قریبی ضلعوں- اوڈیشہ کے جاج پور، کیندوجھار، ڈھینکنال اور سندرگڑھ اور جھارکھنڈ کے مغربی سنگھ بھوم ضلع کا سفر کرتے ہیں

انفرادی توجہ، موافق شیڈول اور وسیع نصاب کے ایک ساتھ آنے سے تعلیم کے تمام نتائج میں قابل ذکر بہتری آ رہی ہے۔ گاؤوں کے نقشے بنانے سے لیکر کیڑوں کی تفصیلی خاکہ نگاری، گھریلو سامانوں کے ساتھ سائنس کے استعمال اور تھوڑا زرعی سائنس تک، یہ ٹیچر طلبہ کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ سیکھتے رہے اور پڑھائی نہ چھوڑیں۔ یہ دیہی ماہر تعلیم غیر سرکاری تنظیم ایسپائر (ASPIRE) اور ٹاٹا اسٹیل فاؤنڈیشن کی ایک پہل کا حصہ ہیں۔

یومِ اطفال ۲۰۲۰ کے موقع پر، پاری ایجوکیشن دیہی اوڈیشہ اور جھارکھنڈ کے ان ٹیچروں کی کہانیاں اور لاک ڈاؤن کے دوران ان کے طلبہ کے ذریعے بنائے گئے نقشے کا نمونہ پیش کر رہا ہے۔

نقشے کیوں؟ کیندوجھار ضلع کے ڈمبو گاؤں کی ۲۲ سالہ ٹیچر، مونالیسا ساہو بتاتی ہیں: ’’ہو سکتا ہے کہ ہمارے بچے ہندوستان کا نقشہ جانتے ہوں، لیکن وہ اپنے گاؤں کو نہیں جانتے۔ ہم نے مشاہدہ کرنے کی ان کی طاقت کو فروغ پاتے دیکھا ہے – وہ اس بات پر دھیان دینے لگے کہ ان کے گاؤوں میں آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ وہ نقشے کے ذریعے اس بارے میں سیکھ سکتے ہیں۔‘‘

اپنے نقشہ کو بنانے کے بعد، کُترا تحصیل کے ۱۰ سالہ گونڈ آدیواسی لڑکے، پراچی بریہا نے بتایا: ’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ دنیا اتنی بڑی ہے۔ میں اسے پہلے نہیں جانتا تھا۔‘‘

دمبارو دار نیال
عمر: ۳۹ سال
مقام: کُترا بلاک، سندرگڑھ ضلع، اوڈیشہ

اوڈیشہ میں، ۸ویں کلاس کا امتحان چل رہا ہے اور بچوں کو اپنا نام اور اپنے والد کا نام لکھنا ہے۔ کئی بچے لکھنے سے قاصر ہیں۔ اکثر، دکھاوے کے لیے وہ امتحان دیتے ہیں اور نام لکھنے کے لیے اپنے آدھار کارڈ کا استعمال کرتے ہیں۔ طلبہ کو پڑھائی جاری رکھنا مشکل لگتا ہے اور وہ ۸ویں کلاس کے بعد اسے چھوڑ دیتے ہیں۔

میں ایک دلت ہوں اور میں نے اپنے آبائی گاؤں کے نوآپاڑہ کے ایک سرکاری اسکول سے پڑھائی کی ہے۔ اب میں ۴۰۰ کلومیٹر دور، سندرگڑھ ضلع میں کام کرتا ہوں – یہاں ۴۷ ٹیچروں کو پڑھاتا اور ان کی نگرانی کرتا ہوں۔

ہم سرکاری اسکولوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ ٹیچر اپنی خود کی تدریس اور طلبہ کو پڑھانے میں بہت کم دلچسپی دکھاتے ہیں۔ وہ تعلیم کو صرف نصابی علم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ یہ لوگ خود اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھاتے ہیں!

ہم اس سے الگ طریقے سے پڑھاتے ہیں۔ ہم سرگرمی پر مبنی تعلیم فراہم کرتے ہیں اور زیادہ تر ٹیچروں کو اس کے بارے میں پتا نہیں ہے۔ اپنی ٹریننگ میں، ہم نے دیکھا کہ ٹیچر شروع میں خود ان سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے ہیں۔ جب وہ حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں، تو اس کے استعمال کو سمجھنے لگتے ہیں۔

نظام شمسی کے بارے میں پڑھانے کی ہی مثال لے لیجئے۔ عام طور پر سائنس کا ٹیچر اسے بلیک بورڈ پر بنا دیتا ہے۔ ہم بچوں کو سائنس پڑھانے کے لیے کلاس سے باہر لے جاتے ہیں، ہم انہیں نظام شمسی کے ماڈل دکھاتے ہیں اور طلبہ کو اپنا ورژن بنانے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ سائنس کو پڑھانے کے لیے مشاہدہ ایک اہم عنصر ہے۔ بچے پوری طرح حصہ لینے لگتے ہیں اور گہری سوچ میں بہتری آتی ہے۔


پنکی ساہو
عمر: ۲۷ سال
مقام: ہری چندن پور بلاک، کیندوجھار ضلع، اوڈیشہ

میری ماں کا دستخط انگوٹھے کا نشان ہے۔ ہمیں کچھ الگ کرنا چاہیے۔

میں نے جب ۲۰۱۵ میں پڑھانا شروع کیا، تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ سائیکل کیسے چلاتے ہیں۔ اس لیے میں جنگل سے ہوکر اسکول جاتی تھی۔ ۲۰۱۷ میں، میں نے سیکنڈ ہینڈ اسکوٹی خریدی۔ لوگ تبصرہ کرتے [اور پوچھتے]، ’’اسے سائیکل [چلانی] تو آتی نہیں، وہ اسکوٹی [چلانا] کیسے سیکھے گی؟‘‘ میں نے چنوتی کو قبول کیا اور اب میں نے ایک اور اسکوٹی خرید لی ہے۔ اور میں بہت اچھا چلاتی ہوں!

’ٹیچر اور طالب علم اکثر ایک ہی زبان نہیں بولتے ہیں‘

یہاں کے ٹیچروں کے لیے زبان سب سے بڑی چنوتی ہے۔ میرے علاقے میں سبھی بچے آدیواسی اور دلت ہیں؛ وہ زیادہ تر ’سنتالی‘ اور ’ہو‘ بولتے ہیں، جسے دیگر ذاتوں کے ٹیچر ہمیشہ نہیں بولتے۔ پھر ذات ایک سبب ہے، کیوں کہ کچھ ٹیچر بچوں کے قریب بھی نہیں جائیں گے اور اسے کھلے طور پر نہیں دکھائیں گے۔ اس لیے بچے خاموش رہتے ہیں اور ڈرتے ہیں۔ اس ماحول میں کوئی کیسے سیکھ سکتا ہے؟

ان کے والدین مزدوری کا کام ڈھونڈنے کے لیے جلدی اٹھتے ہیں۔ اس لیے کسی کو پرواہ نہیں ہوتی کہ بچے اسکول جا رہے ہیں یا پڑھائی کر رہے ہیں کہ نہیں۔ اگر بچے اسکول جاتے بھی ہیں، تو وہ مچھلی پکڑنے یا جلانے والی لکڑی اکٹھا کرنے کے لیے وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔

والدین اڑیہ نہیں بولتے، اس لیے ٹیچروں کو والدین سے بات چیت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ایسا میرے ساتھ بھی ہوا: مجھے بچوں کو آنے کے لیے راضی کرنا پڑتا اور جب وہ آئے تو انہیں ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آیا۔ ان لمحوں میں مجھے بہت رونا آیا۔ میری ماں نے بھی مجھے اپنا اسکول بدلنے کے لیے کہا۔ میں نے ہار نہیں مانی؛ میں نے ایک سنتھال ٹیچر پر دھیان دیا، جو کلاس ۱ اور ۲ کو پڑھاتی تھیں، اور میں نے ان سے ’ہو‘ میں کچھ لفظ سیکھنا شروع کیا۔

ہم نے جب نقشے کی مشق کی، تو انہیں بتایا کہ کیسے نقشے ہمیں چیزوں کو آسانی سے دیکھنے اور تلاش کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ٹیچروں کے طور پر، ہم نے گاؤں کا نقشہ بنانے میں برادری کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اس لیے ہمیں علامتوں کے بارے میں جانکاری تھی، لیکن بچے کچھ نیا لیکر آئے۔ مثال کے طور پر، ’یوتھ کلب‘ کے لیے، انہوں نے چھڑی کے ساتھ ایک لڑکے اور لڑکی کی علامت کا استعمال کیا۔

ہم سکیورٹی کو لیکر بہت محتاط ہیں۔ اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں بخار یا سردی ہے، تو ہم نہیں جاتے۔ ہم بچوں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر وہ صحت مند محسوس نہیں کر رہے ہیں، تو انہیں نہیں آنا چاہیے۔ وہ جب آتے ہیں، تو میں ان کے قلم یا کاغذ کو نہیں چھوتی اور بچوں کو بھی ایک دوسرے کے قلم اور کاغذ کو چھونے کی اجازت نہیں دیتی۔ میں انہیں تھوڑی دوری پر بیٹھاتی ہوں اور ان سے ہاتھ دھونے کے لیے کہتی ہوں۔ ان کے والدین نے صابن کے لیے [پیسے کا] عطیہ دیا ہے۔


نوٹپ بیہیرا
عمر: ۲۴ سال
مقام: گنگاجل گاؤں، کُترا بلاک، سندرگڑھ ضلع، اوڈیشہ

لاک ڈاؤن سے پہلے، اسکول میں ’نصابی کتاب‘ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اب، کوئی حد نہیں ہے۔ میری تدریس قدرت کے ساتھ زیادہ قریب سے جڑی ہوئی ہے۔ آبی جانداروں کے بارے میں پڑھانے کے لیے، میں انہیں ندی کے پاس لے جاتی ہوں۔ میں جن بچوں کو پڑھاتی ہوں، ان میں سے زیادہ تر آدیواسی ہیں اور وہ کھیتی کے بارے میں جانتے ہیں، لیکن پورے طریقہ عمل کو نہیں جانتے۔

طلبہ اپنے وقت کا نظم کرنا، خود سے کیسے بیٹھنا ہے اور دھیان دینا ہے، یہ سب سیکھتے ہیں۔ بیجنتی بریہا کے ذریعے کھینچی گئی تصویر

ہم کھیتوں میں کام کرنے والے لوگوں سے ملے اور بات کی۔ اس دن ان کا ہوم ورک اپنے خود کے بیج اُگانا اور نمو کیوں ہوا اور کیوں نہیں ہوا، اس پر تبصروں کے ساتھ کلاس میں واپس آنا تھا۔ دنیا ڈجیٹل ہو رہی ہے۔ بچے ڈجیٹل [علم] کی گہرائی میں جا رہے ہیں اور چیزوں کی روایتی سمجھ کھو رہے ہیں۔

نقشہ بنانے کی سرگرمی میں، ہم انہیں دکھانا چاہتے تھے کہ دنیا بڑی ہے، لیکن ہم اسے ایک چھوٹے کاغذ پر کیسے دکھا سکتے ہیں؟ وہ نقشے میں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں، یا یہ کیسے بنایا جاتا ہے۔ یا اس کے بغیر دوری کی پیمائش کیسے کریں۔ اسے بدلنے کے لیے، میں انہیں ان کے اسکول میں لے گیا اور اس کی ایک تصویر کھینچی۔ انہوں نے دیکھا کہ کیسے کسی بڑی چیز کو – پوری تفصیل کے ساتھ – چھوٹے میں بنایا جا سکتا ہے۔ اسی تناظر میں ہم نقشوں کو سامنے لانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے توسط سے، انہوں نے اپنے نقشہ کے لیے علامت بنائی۔ اسے پورا کرنے کے بعد، انہوں نے اپنی گرام پنچایت کا نقشہ بنایا، پھر اپنے ضلع، ریاست، ملک، بر اعظم اور آخر میں دنیا کا نقشہ بنایا۔ اگر آپ میرے کسی بھی طالب علم سے پوچھیں کہ آسٹریلیا کہاں ہے اور کس چیز کے لیے مشہور ہے، تو وہ آپ کو بتائیں گے!

اسکول جب بند ہو گئے، تو طلبہ کو اپنے ٹیچروں یا والدین کی رہنمائی کے بغیر، اپنے وقت کا نظم کرنا سیکھنا پڑا۔ دھیرے دھیرے وہ سیکھ رہے ہیں کہ خود سے کیسے بیٹھیں اور صرف پڑھائی ہی نہیں، بلکہ کسی دوسری چیز پر بھی توجہ کیسے مرکوز کریں۔ یہ دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔ میں نے ٹائم ٹیبل اس طرح بنایا ہے کہ انہیں اپنے دَم پر مطالعہ کرنے اور کھیلنے، دونوں کا وقت مل جاتا ہے۔

ایک ٹیچر کے طور پر، میرا دھیان ہمیشہ کمزور طالب علموں پر رہا ہے۔ لیکن کلاس میں، اگر آپ دوہراتے رہتے ہیں اور ان کے لیے دھیمی رفتار سے چلتے ہیں، تو دوسرے بچے اوب جاتے ہیں یا چڑھ جاتے ہیں۔ چھوٹی کلاسز میں، یہ اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم دو سے تین گھنٹے بیٹھ سکتے ہیں اور دھیرے دھیرے کام کرتے ہوئے ان کی انفرادی تعلیم پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔ کلاس جیسا شور اور ہنگامہ بھی نہیں ہوتا، جو عام طور پر میرا بہت وقت لیتا ہے۔

اس ماڈل کا چیلنج بھرا حصہ یہ ہے کہ فصل کٹائی کے وقت بچوں کو اب بھی اپنے والدین کے ساتھ جانا پڑتا ہے۔ یا اگر [مہاجر] کام شروع ہو رہا ہو۔ میں اکیلا رہتا ہوں، اور کبھی کبھی میری کلاسز رات کے ۸ سے ۹ بجے تک چلتی ہیں۔ جب تک میں کھانا بناتا اور کھاتا ہوں، تب تک آدھی رات ہو چکی ہوتی ہے۔ لیکن یہ میری ذمہ داری ہے۔

جب لاک ڈاؤن شروع ہوا، تو زیادہ تر اسکول بچوں کو ورچوئل طریقے سے پڑھانے لگے۔ بڑی مشکل سے، شاید میرے دو یا تین طلبہ کے کنبوں کے پاس اینڈرائڈ فون ہیں، اور ان کے والدین اسے کام پر لے جاتے ہیں۔ اگر ان کے پاس، یا ان کے والدین کے پاس [اسمارٹ فون] ہے، تب بھی اسے کیسے چلانا ہے یہ سیکھنے میں وقت لگے گا۔

میں ۴۳ طلبہ کے ساتھ کام کرتا ہوں اور پانچ اور اس سے زیادہ کے گروہوں کا دورہ کرتا ہوں۔ عام طور پر، میں ان کے گھروں میں پڑھاتا ہوں – برآمدہ ہمارے لیے کافی موزوں ہے۔ میں طلبہ کے ہر ایک گروپ کے ساتھ تقریباً دو سے تین گھنٹے گزارتا ہوں۔ مجھے ہفتہ میں کم از کم ایک بار سبھی طلبہ تک پہنچنا ہوتا ہے، اس لیے میں اپنی سائیکل کا استعمال کرتا ہوں، اور پیدل بھی چلتا ہوں۔


چندرمنی ماجی
عمر: ۳۲ سال
مقام: کاندھا آدیواسی، نوآمُنڈی بلاک، مغربی سنگھ بھوم ضلع، جھارکھنڈ

’ہم نے جب شروع کیا، تو بچے کے ہاتھ میں کتاب پکڑاتے ہی وہ بھاگ جاتے تھے‘

ہم نے اپنے علاقے میں دیکھا کہ بچے اسکول سے باہر تھے۔ ان کے نام اندراج کے طور پر موجود تھے، لیکن وہ اسکول میں موجود نہیں تھے۔ جب بچے اسکول آتے تھے، تب بھی وہ اپنی کلاس کی سطح کے مطابق کارکردگی نہیں کر پاتے تھے۔ کلاس ۵ کے طالب علموں کو پڑھنا اور لکھنا نہیں آتا تھا۔

ہم نے جب شروع کیا، تو بچے کے ہاتھ میں کتاب پکڑاتے ہی وہ بھاگ جاتے تھے! دھیرے دھیرے وہ خود سے پڑھنے لگے ہیں۔ وہ نئی چیزیں سیکھنا چاہتے ہیں اور ان کا تدریسی کام باقاعدگی سے ہونے لگا ہے۔

جب ہم نے بچوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تھا، تب وہ صرف یہی کہتے تھے، ’میں ایک ٹیچر یا پولس یا ڈاکٹر بنوں گا‘۔ اب کچھ کہتے ہیں، ’میں ایک فنکار بنوں گا،‘ دوسرا کہتا ہے کھلاڑی [پہلوان] بنوں گا۔

میں اوڈیشہ سے ہوں اور جھارکھنڈ میں ٹیچر کوآرڈی نیٹر کے طور پر کام کرتا ہوں۔ تمام ٹیچروں کی تقرری ان علاقوں سے ہوئی ہے۔ زیادہ تر لوگ آدیواسی ہیں اور سنتال اور ہو برادریوں سے ان کا تعلق ہے۔


نبیدتا مہنتا
عمر: ۲۳ سال
مقام: بھانڈا گاؤں، چمپوا بلاک، کیندوجھار ضلع، اوڈیشہ

شروعاتی دنوں میں، والدین اور بچے گھر پر دستیاب نہیں تھے اور مجھے طلبہ کو ان کے گاؤں میں تلاش کرنا پڑتا تھا۔ طلبہ کو ڈھونڈنے میں مجھے دو سے تین گھنٹے لگ جاتے تھے۔ وہ مجھے دیکھتے اور کہتے، ’دیدی آ رہی ہے‘ اور بھاگ جاتے تھے! مجھے ان کو کھیتوں میں یا ندی پر ڈھونڈنا پڑتا تھا، یہاں اور وہاں انہیں تلاش کرنا پڑتا تھا۔ اب بچے مجھ سے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ میں نے ان کے والدین اور گاؤں کے دیگر نوجوانوں کے ساتھ ایک رشتہ بنایا ہے۔ چونکہ والدین مجھے پڑھاتے ہوئے دیکھتے ہیں، اس لیے بچے جھوٹ نہیں بول سکتے کہ ان کا ٹیچر اسکول نہیں آیا تھا!

لاک ڈاؤن میں جب میں نے اپنی پہلی کلاس شروع کی، تو مجھے والدین کے ساتھ بات چیت کرنے، ان کے تہواروں، روزمرہ کے کام، زبان وغیرہ کے بارے میں جاننے میں کچھ وقت لگا۔ جب مجھے پتا چل گیا تو میں والدین کو اپنے بچے کی تعلیم میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کرنے لگی۔ کچھ دنوں کے بعد والدین مجھ سے ہل مل گئے اور ہماری کلاسز کی حمایت کرنے لگے۔ میں گھر گھر جاتی ہوں اور والدین مجھے چھوٹے گروہوں میں پڑھانے کے لیے اپنے برآمدے کی پیشکش کرتے ہیں۔ میں نے ہر ایک بچے کے لیے ایک ٹائم ٹیبل بنایا ہے اور میں ہفتہ میں دو بار ان سبھی ۶۷ کے پاس جاتی ہوں۔ میں بھیڑ سے پاک جگہوں پر اپنی کلاسز لینے کی کوشش کرتی ہوں۔

’میں نے ہندوستان کا خاکہ زمین پر بنایا۔ اور یہ دکھانے کے لیے کہ ہر ریاست کہاں ہے، اسے فلیش کارڈ سے بھر دیا‘

نقشے کا خیال اس لیے آیا کیوں کہ ہمیں لگا کہ انہیں اپنے گاؤں کو اچھی طرح سے جاننا چاہیے۔ کم از کم انہیں ہندوستان کا نقشہ سکھانے سے پہلے۔ اپنے گاؤوں کا نقشہ بناتے وقت انہوں نے سمتوں کے بارے میں سیکھا – آنگن واڑی کہاں ہے، کون سے راستے کہاں جا رہے ہیں اور ان کے اپنے گھروں کا محل وقوع کیا ہے۔

طلبہ نے جب اپنے نقشے بنا لیے اور علامتوں کو بنانا سیکھ لیا، تو ہم نے ہندوستان کے نقشے کو پیش کیا۔ یہ بہت مشکل تھا۔ یہاں تک کہ مختلف ریاستوں کے ناموں کا تلفظ بھی مشکل تھا۔ اس کے لیے میں نے ایک بڑے کاغذ پر ہندوستان کا نقشہ بنایا اور اسے ہر ایک رہائش گاہ میں لے گیا۔ پھر میں نے زمین پر ہندوستان کا خاکہ بنایا۔ اور یہ دکھانے کے لیے کہ ہر ایک ریاست کہاں ہے، اسے فلیش کارڈ سے بھر دیا۔ اس طرح انہوں نے جنوب- شمال- مشرق- مغرب کو سمجھا۔ ان کا مشاہدہ کرنے کے لیے، میں طالب علم کو کسی ریاست کا فلیش کارڈ دیتی اور انہیں اس نقشہ پر رکھنے کے لیے کہتی۔ یہ کامیاب رہا اور اب ہم ضلع کے نقشے بنانے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔


رشمی جے پوریہ
عمر: ۲۶ سال
مقام: گومارڈیہی بستی، ٹنمورا گاؤں، کُترا بلاک، سندرگڑھ ضلع، اوڈیشہ

ہم نے فرش کی سرگرمی کے ساتھ شروعات کی – چاک کے ساتھ ہم نے فرش پر ہندوستان کا نقشہ بنایا اور ہم نے ریاستوں اور ان کی راجدھانیوں کی کھوج اور ان کی پہچان کی۔ اب وہ [بچے] آسانی سے مجھے بتا سکتے ہیں کہ کون سی ریاست ہندوستان کے مشرق میں ہے اور کون مغرب میں۔

میں کس بستی میں جا رہی ہوں، اسے دھیان میں رکھ کر سبق تیار کرتی ہوں

پہلے ۲۹ ریاستیں تھیں، اب لداخ جیسے مقامات میں تبدیلی کے سبب، میں انہیں اس سرگرمی کے ساتھ اس کے بارے میں سکھانے میں کامیاب رہی۔ آندھرا پردیش میں بھی، پہلے راجدھانی حیدرآباد تھی، لیکن اب امراوتی ہے۔ تو اب بچوں نے ان نئی چیزوں کے بارے میں سیکھ لیا ہے۔

گاؤں کا نقشہ بناتے وقت، انہوں نے یہ پہچان لیا ہے کہ کچی سڑک کہاں ہے اور پکّی سڑک کے لیے کن علامتوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب، سڑک پر علامتوں کو دیکھنے کے بعد وہ انہیں پہچان سکتے ہیں، اور وہ جہاں بھی جائیں ایک نقشہ بنا سکتے ہیں۔ ہم انہیں مشاہدہ کرنے اور اسے اپنی نوٹ بک میں لکھنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں؛ یہ انہیں مصروف رکھتا ہے۔

ہم نے انہیں کھیتی کے بارے میں پڑھایا اور کھیت میں گئے، اور انہوں نے واپس آکر اپنے خود کے پودوں کو اُگانے کی کوشش کی، یہ پیمائش کرتے ہوئے کہ اسے کاٹنے کے لیے کتنا لمبا ہونا چاہیے، اور چاول کو اچھی طرح سے اُگانے کے لیے ایک دوسرے سے کتنے فاصلہ پر لگانا چاہیے۔ وہ کسان فیملی سے آتے ہیں، لیکن یہ مشاہدہ ان کے لیے نیا تھا۔ ہم نے مختلف قسم کی جڑیں لگائیں اور برادری نے اس میں ہمارا ساتھ دیا۔ اس طرح طلبہ نے سمجھا کہ مٹی کو کیا چاہیے اور کتنا پانی دینا ہے۔ اب درخت کھل گئے ہیں اس لیے وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے یہ سب خود اپنے ہاتھوں سے کیا ہے۔

ہماری سرگرمیوں میں سے ایک مرغی کی اونچائی اور گائے کی چوڑائی کو ناپنا تھا۔ والدین نے جب مقصد کو سمجھا، تو انہوں نے اپنے بچوں کی مدد کی اور اپنے گھروں میں ہمارا خیر مقدم کیا۔ ان کے والدین زیادہ تر کسان اور دہاڑی مزدور ہیں؛ میں انہیں اپنے بچوں کی تعلیم میں شامل دیکھ کر خوشی محسوس کرتی ہوں۔

ذاتی طور پر، میں نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں کس بستی میں جا رہی ہوں، اس کی بنیاد پر سبق کو تیار کرنے میں وقت گزارتی ہوں۔ جب میں دیگر ٹیچروں کے ساتھ کام کرتی ہوں، تو ہم ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔


مونالیسا ساہو
عمر: ۲۲ سال
مقام: ڈمبو گاؤں، کیندوجھارگڑھ بلاک، کیندوجھار ضلع، اوڈیشہ

میرا دن صبح ۶ بجے شروع ہوتا ہے اور شام کو ۶ بجے یا اس کے بعد ختم ہوتا ہے۔ میں بچوں کے تین گروہوں، سبھی میں ۴۱ طالب علم، کو پڑھانے کے لیے تقریباً ۱۵ کلومیٹر کی دوری طے کرتی ہوں۔

اس سے پہلے، طلبہ یہ بتانے کے قابل تھے کہ انہوں نے کیا دیکھا لیکن اسے لکھ نہیں پاتے تھے۔ وہ تصویر بنانے اور لیبل کرنے کے قابل تھے لیکن لکھتے نہیں تھے۔ اب وہ تقریباً ۱۰ سے ۱۲ لائنیں لکھنے کے قابل ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے بچے ہندوستان کا نقشہ جانتے ہوں، لیکن وہ اپنے گاؤں کو نہیں جانتے۔ ہم نے سوچا کہ وہ نقشے کے توسط سے اس بارے میں جان سکتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے – انہوں نے اپنے گاؤں میں اپنے آس پاس موجود چیزوں کو دیکھنا اور خود سے پوچھنا شروع کیا کہ کیا انہیں اس کے بارے میں پتا تھا۔

لاک ڈاؤن میں جب میں نے گھر کی سطح پر پڑھانا شروع کیا، تو میں نے دیکھا کہ میرے آدھے طالب علم حروف کی سطح پر تھے [حروف کی پہچان کرنے کے قابل]۔ وہ اڑیہ اور انگریزی کے صرف آدھے حروف جانتے تھے۔ اب وہ انہیں لکھنے کے قابل ہیں اور ساتھ ہی اڑیہ میں ایک سے لیکر ۱۰ تک کی گنتی بھی سنا سکتے ہیں۔

مجھے تعلیم کی قدر کا علم ہے، لیکن میں اس کی اہمیت نہیں دیکھ پائی تھی۔ اب میں دیکھ رہی ہوں کہ ان کی سوچ کیسے بڑھ رہی ہے۔


راکھی ترپاٹھی
عمر: ۲۳ سال
مقام: ایمپولابا گاؤں، سوکنڈا بلاک، جاج پور ضلع، اوڈیشہ

میرے ۷۰ فیصد طلبہ کے کنبوں کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے۔ جن کے پاس ہے، وہ آن لائن تعلیم سے دور ہیں۔ اب انہیں سرچ بار میں ٹائپ کرنے اور اسپیکر کے توسط سے سوال کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ وہ کھوجنے اور سیکھنے کے لیے اس علم کا استعمال کر رہے ہیں۔

میں ۱۴ بستیوں [گھروں کے گروپ] کا دورہ کرتی ہوں اور روزانہ تقریباً آٹھ سے ۱۰ کلومیٹر سائیکل چلاتی ہوں۔ پورے ہفتہ، میں ان پانچ بچوں کے ساتھ ایک ایک کرکے کلاسز لیتی ہوں جو دوسروں سے بہت دور رہتے ہیں۔ دیگر ۵۱ کو میں نے چھوٹے گروہوں میں پڑھاتی ہوں کیوں کہ وہ ایک دوسرے کے قریب رہتے ہیں۔ ہم نے ان پانچ بچوں کو گروپ میں پڑھانے کے لیے ساتھ لانے کی کوشش کی، لیکن ہمیں لگا کہ انہیں اتنی دوری طے کرنے پر مجبور کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

میرا دن صبح ساڑھے ۵ بجے شروع ہوتا ہے اور اپنے گھر کا کام ختم کرنے کے بعد میں اپنی پہلی کلاس کے لیے ساڑھے ۶ بجے تک نکل جاتی ہوں اور پھر ۱۲ گھنٹے بعد گھر لوٹتی ہوں۔ پیر سے سنیچر یہی میرا معمول ہے، اور اگر ہفتہ کے دوران کوئی بچہ چھوٹ جاتا ہے، تو میں اتوار کو اس سے ملنے جاتی ہوں۔

ہم اسمیتا اگروال، تبریز انصاری اور ان تمام ٹیچروں اور طالب علموں کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ اپنا کام اور وقت شیئر کیا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Editor's note

ریا بہل اشوکا یونیورسٹی میں ۲۰۱۹-۲۰۲۰ کی مدر ٹیریسا فیلو ہیں اور پاری کے ساتھ انٹرن شپ کر رہی ہیں۔ انہوں نے کئی انٹرویو کیے اور اس اسٹوری کے لیے رپورٹ کیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں نے بالواسطہ طور پر سنا کہ لاک ڈاؤن کے دوران ٹیچر، طلبہ تک پہنچنے کے لیے اتنی لمبی دوری طے کر رہے ہیں اور اس قسم کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ اس اسٹوری کے لیے تحقیق ایک ٹیچر ہونے کا فرض اور ہمت کا ایک سبق تھا۔‘‘

انترا رمن بنگلور میں واقع ایک خاکہ نگار اور گرافک ڈیزائنر ہیں۔ ان کے فن پر سوشل سائنس اور حیاتیاتی نظام اور تحفظ کے لیے جنون کا سب سے زیادہ اثر ہے۔ ایک قاری کے طور پر، پاری کے لیے بنائے گئے ان کے خاکوں میں بیانیہ کا معیار اور رنگ کا موزوں استعمال واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔